• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے خراجِ عقیدت کے طور پر سردار عطاء ﷲ مینگل کے ساتھ اپنے انٹرویو کی ایک تصویر فیس بک پر آویزاں کی اور ساتھ یہ اظہار کیا کہ اب دیکھنا ہے کہ ان کے صاحبزادے اختر مینگل اپنے والد کی میراث کیسے سنبھالتے ہیں؟ ہمارے کرم فرما، صاحبِ مطالعہ، مصنّف، عبدالقادر رند نے فوری اپنے تاثر کا یوں اندراج کیا ’’آپ کا یہ سوال غیرمتعلق ہے کہ اختر مینگل اپنے والد کی میراث کو کیسے سنبھالتے ہیں۔ 

سوال یہ ہونا چاہئے کہ مشرف سمیت سبھی ہر دور میں یہ کہتے رہے کہ بس یہ 3سردار گڑ بڑ کرتے ہیں۔ باقی 72تو ہمارے ساتھ ہیں۔ اب تینوں سردار بگٹی، مری، مینگل رخصت ہو گئے۔ اب تہمتِ عشق کس کے دامن پر رکھیں گے؟‘‘

۔۔۔۔۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملنے، ان کی سننے کا دن۔ مجھے تسکین ہوتی ہے جب بہت سے احباب یہ بتاتے ہیں کہ وہ واقعی اتوار کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے ہیں۔ ان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بچے ان کے اور وہ بچوں کے قریب ہورہے ہیں۔ یہ دور ہے ہی بچوں کا۔ کراچی میں بارشیں ہورہی ہیں۔ مجھے موسلا دھار بارش کی موسیقی سنائی دے رہی ہے۔ 

ﷲ کرے یہ رحمت کی بارش رہے۔ ہم کم ظرف ہیں۔ میٹھے پانی کی فراوانی ہم سے سنبھالی نہیں جاتی۔ بارشوں سے پہلے کرنے والے کام وقت پر نہیں کرتے۔ بعد میں سب واویلا کرتے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کے لئے ایڈمنسٹریٹری کے بعد یہ پہلی موسلا دھار بارشیں ہیں۔ دیکھتے ہیں، وہ اس میں شہباز شریف کی طرح لمبے بوٹ پہن کر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اُتر کر تصویریں بنواتے ہیں یا نہیں؟

۔۔۔۔۔

اپنی اولادوں کو آج بلوچستان کے بارے میں ضرور بتائیے۔ یہ نہ صرف رقبے میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ یہاں معدنی وسائل بھی سب سے زیادہ ہیں۔ سونا ہے، تانبا ہے، تیل ہے، گیس ہے۔ سوئی سے نکلنے والی گیس پورا پاکستان استعمال کرتا رہا۔ 

بلوچستان اور خود سوئی والوں کو یہ نعمت برسوں بعد ہی مل سکی۔ بلوچستان پر دوستوں دشمنوں سب کی نظریں لگی رہتی ہیں۔ اب افغانستان میں طالبان کے راج کے بعد بلوچستان کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ جناب سردار عطاء ﷲ مینگل کی سیاست، نظریات، افکار سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ 

ان کے قبیلے کی طاقت پر دو رائے ہو سکتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے جو بھی نظریات تھے، قیامِ پاکستان سے پہلے، بعد میں۔ بیسویں صدی میں اکیسویں صدی میں ان کی سمت ایک ہی رہی۔ مجھے ابھی خبر نہیں ہے کہ اس طاقت ور بلوچ ٹرائیکا کے آخری کردار کی رحلت پر اسلام آباد اور پنڈی میں کیا تاثرات ہیں لیکن بلوچستان میں، سندھ کے بلوچ حلقوں میںاورترقی پسندوں کی صفوں میں ملال کی کیفیت ہے۔ 

تینوں سرداروں میں سے نواب اکبر بگٹی اور سردار عطاء ﷲ مینگل کو تو پاکستان کے قیام کے بعد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر رونق افروز ہونے کا موقع بھی ملا۔ بگٹی صاحب گورنر بھی رہے، وزیراعلیٰ بھی۔ مینگل صاحب کو بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ 

سردار خیر بخش مری 1970کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ تینوں سردار بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ، نظریاتی، ادب، شعر و سخن کا ذوق رکھنے والے۔ اس کے باوجود اپنی قبائلی روایات کے پابند۔ ترقی پسند رجحانات لیکن اپنے علاقوں میں اپنے قبیلے کے لوگوں کے لئے زندگی آسان نہ کر سکے۔ 

ہر سیاسی فوجی سربراہ نے ان سے ملاقاتیں کیں مگر یہ ملاقاتیں نتیجہ خیز نہ رہیں۔ تینوں نے ہر دور میں جیلیں کاٹیں۔ جمہوریت رہی ہو یا مارشل لا، اپنے لوگوں کے دِلوں پر ان کی ہی حکومت رہی۔ میں نے اپنی کتاب ’’بلوچستان سے بےوفائی‘‘ میں کوشش کی ہے کہ اسلام آباد اور بلوچستان کے درمیان فاصلوں کا پس منظر تلاش کروں۔ 

بلوچستان کے محسوسات کیا ہیں؟ اور بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مسئلہ تاریخی ہے کہ آپ جب ایک نیا جغرافیائی بندوبست وجود میں لاتے ہیں تو اس میں شامل ہونے والی علاقائی وحدتوں کے دل اور ذہن جیتتے ہیں یا اپنی رائے ان پر مسلط کرکے انہیں زیردست ہونے کے احساس میں مبتلا کرتے ہیں۔

اب تو پاکستان اپنے قیام کے 75ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ ڈائمنڈ جوبلی کا سال ہے۔ یہاں ہمیں اپنی غلطیوں المیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ ناانصافیوں کی نشاندہی کرکے متعلقہ علاقوں اور لوگوں کو مطمئن کرنا چاہئے۔ یہ سب ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔ 

تاریخ کے ہر دور میں قبیلے اسی طرح اپنی الگ الگ شناخت رکھتے تھے۔ پھر وہ کبھی مذہب کے حوالے سے کبھی سیاسی نسبت سے ایک ہوتے رہے۔ اورانتظامی اکائی میں رہتے ہوئے سب ایک دوسرے کے وسائل سے ایک دوسرے کی زندگی آسان کرتے رہے۔

یہ موقع ہے کہ بلوچستان کے دل جیتنے کے لئے صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، آرمی چیف، قومی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، سینیٹ کے چیئرمین ،ڈپٹی چیئرمین، اختر مینگل سے اظہارِ تعزیت کے لئے ان کے گائوں جائیں تاکہ مرحوم کے پیروئوں، کارکنوں کو احساس ہو کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن پاکستانی ہونے کا رشتہ سب پر فائق ہے۔ 

علیحدگی پسندی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ وفاقی بندوبست پر شدید تنقید ہوتی ہے۔ تو اس کے اسباب بھی ہیں۔ انہیں دور کرنا چاہئے۔ پاکستان کے سیاسی جغرافیائی انتظام کو صرف 74 سال ہوئے ہیں۔ ان میں بھی نا انصافیاں اور جبر بہت رہا ہے۔ 

74سال صدیوں کی رفاقتوں، ثقافتوں، قربتوں پر غالب اسی صورت میں آسکتے تھے کہ ہم سب ایک دوسرے کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیتے۔ ایک دوسرے کے عقائد، نظریات اورمحسوسات کا احترام کرتے۔ ہر پاکستانی کے حقوق پورے کرتے۔ 

سرداری، جاگیرداری، سرمایہ داری اور ٹھیکیداری کی مراعات کو ختم کرکے صرف پاکستانی ہونے کو عزت اور احترام دیتے۔ صرف پاکستانی ہونا اس ریاست کے وسائل سے بہرہ ور ہونے کے لئے کافی ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا لیکن آج کے دَور اور اکیسویں صدی کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ وسائل سب کے استعمال میں لائیں۔

تازہ ترین