• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

80سال قبل کی بات ہے، 26اگست 1941، اسلامیہ پارک پونچھ روڈ لاہور میں مستری محمد عبداللہ کی کوٹھی (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی رہائش گاہ) پر 75افراد کے مختصر اجتماع میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے آج ہزاروں ارکان اور لاکھوں کارکنان ہیں، جماعت اسلامی ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ میں جماعت اسلامی کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے کور کرنے کا اعزاز رکھتا ہوں، میں نے جماعت اسلامی کا ’’عروج و زوال‘‘ بہت قریب سے دیکھا ہے، جب جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی لیکن اس کا ووٹ بینک قابلِ ذکر تھا، 1970کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں مجموعی طور پر 151امیدوار کھڑے کئے، جماعت اسلامی واحد جماعت تھی جس نے ملک کے دونوں حصوں میں امیدوار کھڑے کئے لیکن جب اس کے ارکان کی تعداد ہزاروں میں چلی گئی اور اس کے ممبرز لاکھوں ہو گئے، 80سال کے طویل سفر میں جماعت کا ووٹ بینک کیوں کم ہوا؟ میں اپنی تمام تر تحقیق کے باوجود اِس عقدہ کو حل نہ کر سکا، ابھی تک میں یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ پاکستان کی سب سے منظم جماعت جس کے پاس ’’اسلام اور پاکستان‘‘ کے لئے جان قربان کرنے والے کارکنوں کی ایک بڑی ’’فوج‘‘ موجود ہے ، وہ کیونکر پارلیمنٹ میں پہنچ نہیں پاتی؟ 1970کے انتخابات میں جماعت اسلامی کراچی، حیدر آباد اور خیبر پختونخوامیں مضبوط ووٹ بینک رکھتی تھی، 1977کے متنازعہ انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر سید منور حسن پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جماعت اسلامی ایک دو انتخابات کے سوا تمام انتخابات میں اتحادوں کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتی رہی، ایک آدھ بار عام اتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا، مسلم لیگ (ن) جو جماعت اسلامی کی فطری اتحادی جماعت ہے، جماعت اسلامی کے ووٹ بینک سے فائدہ اٹھا کر بڑی تعداد میں اپنے ارکان منتخب کراتی رہی لیکن وہ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 8،9سے بڑھنے نہیں دیتی تھی، مسلم لیگ (ن) نے جماعت اسلامی جیسی ’’بنیاد پرست‘‘ جماعت کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کر لی۔ 2013کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے اپنے ٹکٹ پر انتخاب لڑا، ووٹ بینک کی کمی نے جماعت اسلامی کا بھرم قائم نہ رہنے دیا، 2018کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایک بار پھر ایم ایم اے کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا جس کے نتیجے میں جمعیت علمائے اسلام نے تو قابلِ ذکر نشستیں حاصل کر لیں لیکن جماعت اسلامی کا صرف ایک ہی رکن قومی اسمبلی تک پہنچ سکا، اس ناکامی سے جماعت اسلامی اتحادوں کی سیاست سے تائب ہو گئی، اب جماعت اسلامی پچھلے تین سال سے ’’سولو فلائٹ‘‘ کر رہی ہے، جماعت اسلامی اکیلے ملک میں بڑے بڑے جلسے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، متعدد ملین مارچ کر چکی ہے، جماعت اسلامی کے علاوہ صرف جمعیت علمائے اسلام کے پاس اسٹریٹ پاور ہے، جماعت اسلامی نے تنہا بڑے بڑے کشمیر مارچ کئے ہیں لیکن جماعت اسلامی کو آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں ایک فیصد ووٹ ملے ہیں، جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سابق امیر سردار عبدالرشید ترابی کو پی ٹی آئی کے امیدوار کی مدد کرنے کے ’’جرم‘‘ میں جماعت ہی سے نکال دیا گیا۔

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو تاسیسی اجتماع میں جماعت اسلامی کا پہلا امیر منتخب کیا گیا جنہوں نے قمرالدین خان کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا، 6ماہ بعد ہی میاں طفیل محمد کو سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا۔ سید مودودیؒ کی وفات کے بعد میاں طفیل محمدامیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے، انہوں نے چوہدری رحمت الہٰی کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا، وہ 1978تک سیکریٹری جنرل رہے، بعد ازاں قاضی حسین احمدکو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ میاں طفیل محمد خرابیٔ صحت کے باعث امارت سے الگ ہو گئے تو قاضی حسین احمدکو امیر جماعت اسلامی منتخب کیا گیا، انہوں نے چوہدری محمد اسلم سلیمی صاحب کو سیکرٹری جنرل بنا دیا ، بعد ازاں سید منور حسن کو سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری سونپی گئی۔ قاضی حسین احمد 22سال سے زائد عرصہ تک امیر رہے، ان کے دور میں جماعت اسلامی کے کچھ رہنمائوں نے بغاوت کر دی اور تحریک اسلامی کے نام سے الگ جماعت بنا لی لیکن یہ نئی تنظیم جماعت اسلامی کو کمزور کر سکی اور نہ ہی جماعت اسلامی کی مضبوط بنیادوں میں دراڑ ڈالی جا سکی، جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو پارٹی کے اندر اختلاف رائے رکھنے کے باوجود کبھی دھڑوں میں تقسیم نہیں ہوئی کیونکہ اس کا ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا گیا ہے۔ قاضی حسین احمد ہی پاکستان میں دھرنا دینے والے پہلے سیاست دان ہیں، انہوں نے 24جون 1996کو اسلام آباد میں بےنظیر حکومت کی کرپشن کے خلاف پہلا دھرنا دیا۔ جماعت اسلامی پاکستان قومی اتحاد اور بعد ازاں اسلامی جمہوری اتحاد کی روح ِرواں رہی۔ 2002میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کی قوت کا باعث بنی۔ قاضی حسین احمد نے بھی خرابی صحت کے باعث امارت چھوڑ دی تو ان کی جگہ ان کے سیکریٹری جنرل سید منور حسن امیر منتخب ہو گئے انہوں نے لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل بنا دیا پھر ثمر باغ کے درویش صفت تازہ دم سراج الحق امیر منتخب ہو گئے۔ اسے حسنِ اتفاق سمجھیں یا کچھ اور، سید منور حسن کی طرح سراج الحق بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے ہیں۔ انہوں نے 9اپریل 2014کو امارت سنبھالی اور لیاقت بلوچ ہی کو سیکرٹری جنرل بنایا لیکن 2019میں سراج الحق دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوئے تو امیر العظیم کو سیکرٹری جنرل بنا دیا میں نے جماعت اسلامی کو مولانا فتح محمد، فخر الدین بٹ، راجہ بشارت اور قاضی رحمت مرحومین جیسے درویش صفت رہنمائوں کے ذریعے پہچانا، قاضی رحمت جماعت اسلامی کے فنڈ سے کھانا کھانے کی بجائے رات کی باسی روٹیوں پر گزارا کرتے تھے ایسی ولی ہستیاں جماعت اسلامی کی رکن تھیں جن کو میں آج بھی جماعت اسلامی کی صفوں میں تلاش کرتا رہتا ہوں۔

تازہ ترین