• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر اسامہ بن لادن آپریشن سے منسلک قومی رسوائی کا الزام آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈالا جائے تو کیا یہ ہندوستان اور امریکہ کی مددکے مترادف نہ ہو گا جو ہماری فوج اور آئی ایس آئی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہان متوقع کارکردگی میں ناکامی کے ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں تو کیا ہم دشمن سے برسر پیکار فوجیوں کے حوصلے پست کرنے کے مرتکب نہ ہوگے؟ لیکن اگر ان سربراہان کو اندرونی سلامتی کا ذمہ دار گردانا جائے تو کیا ہم قانون نافذ کرنے والے سول اداروں اور ان کے سیاسی آقاؤں کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں جو قانون کی رو سے ایسے معاملات کے حقیقی ذمہ دار ہیں ؟پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسے سنگین موقع پر انتظامی کنٹرول ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے جو قانونی لحاظ سے اس کے اہل ہیں یعنی خاکی سے سول کی جانب منتقلی، تو کیا ہم قومی مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کے مجرم نہ ہوں گے؟اگر ہمارا یہ ماننا ہے کہ طالبان ریاست کے لئے خطرہ ہیں،تو کیا ہمیں ڈرون کی حمایت نہیں کرنا چاہئے جو ان درندوں کے دل میں خوف پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے؟ لیکن اگر ڈرون کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ معصوم شہریوں کے قتل عام کا باعث بنتا ہے تو کیا آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی نہ ہو گی کہ آخر کیوں طالبان پاکستانی ریاست کے مخالف ہیں اور ڈرون حملوں کی اجازت دینے کے باعث نہتے شہریوں پر حملے کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں ؟ کیا وہ لوگ جو سولہ سالہ ملالہ یوسف زئی کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر پر اظہار مسرت کر رہے ہیں ایک طرح سے ان تمام مظالم کی حمایت کے مرتکب نہیں جو شیطانی عالمی طاقتیں مسلم دنیا پر روا رکھے ہیں ؟ یعنی اگر آپ ایک نقطہ نظر کے مخالف ہیں تو یقیناً دوسرے کے حمایتی،کیا ایسا نہیں؟
ایبٹ آباد کمیشن کی منظر عام پر آنے والی ڈرافٹ رپورٹ ہو یا ملالہ کی اقوام متحدہ میں تقریر ،ان دونوں پر ردعمل ایک چیز تو واضح کرتا ہے اور وہ یہ کہ بطور ایک ریاست اور معاشرہ ہم احساس توازن کھو چکے ہیں۔ آغاز افشا ہونے والی رپورٹ سے کرتے ہیں اب ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ وہ رپورٹ نہیں جو حکومت کو پیش کی گئی بلکہ کمیشن کے ایک ممبر کی مرتب کردہ ڈرافٹ رپورٹ ہے۔ یہ ڈرافٹ نہ تو کسی کو نام لیکر مورد الزام ٹھہراتا ہے، نہ ہی واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ بعض اوقات فرائض میں غفلت ارتکابِ جرم ہی کی طرح سنگین ہوتی ہے۔ یہ ڈرافٹ اسی حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنا ہے کہ یہ ہمارے قومی سلامتی کے نظام میں سنجیدہ اور بامعنی احتساب سے بھی گریزاں ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ڈرافٹ بھی کمیشن کے دوسرے ممبران کے لئے ہضم کرنا مشکل ثابت ہوا۔
چنانچہ کمیشن کے محترم ممبران نے اسامہ بن لادن کمیشن میں شامل واحد جرنیل کی تیار کردہ رپورٹ کی تائید کی ،ان میں اشرف جہانگیر قاضی شامل نہ تھے۔ جو افشا شدہ رپورٹ کے خالق تھے۔ سینٹ کی ذیلی کمیٹی کو دیئے گئے بیان کے مطابق اشرف قاضی کا موقف تھا کہ افشا شدہ ڈرافٹ دراصل ایک متفقہ رپورٹ کے طور پر تحریر کیا گیا تھا۔ جب ہی ڈرافٹ منظور نہ کیا گیا تو لیفٹنٹ جنرل ندیم احمد کی رپورٹ پر بطور ردعمل مجبوراً اشرف قاضی کو اختلافی نوٹ درج کرنا پڑا ۔کمیشن کی بنیادی ذمہ داری اس بات کا تعین کرنا تھا کہ آخر کیوں چھ سال تک پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی نشاندہی نہ ہوئی اور یہ کہ امریکی کیسے پاکستان کے گنجان آباد شہر میں عسکری کارروائی مکمل کر کے لوٹ لئے گئے اور ہمیں اس کا علم تک نہ ہوا۔ افشا ہونے والی اس اقلیتی رپورٹ کے مطابق فوج، آئی ایس آئی ،ایئر فورس اور تمام سول اداروں نے نااہلی کا ثبوت دیا ۔ رپورٹ کا مزید کہنا تھا کہ خفیہ ساز باز کا عنصر مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن کمیشن کے سامنے جو ثبوت پیش کئے گئے ان کے مطابق اسامہ بن لادن کے قیام یا امریکہ کو بغیر کسی رکاوٹ کے ملٹری آپریشن کی اجازت جیسے معاملات میں ریاستی اداروں کی ممکنہ ساز باز کے کوئی شواہد پیش نہیں ہوئے۔
افشا شدہ رپورٹ حتمی طور پر جہاں دوسروں کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی اور پاک فضائیہ کے سربراہ کی اہلیت پر ضرب لگاتی ہے وہاں اس کا موقف یہ بھی ہے کہ نام لے کر لوگوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے کچھ حاصل نہیں (کیونکہ تمام لوگ ذمہ داروں کی شناخت سے آگاہ ہیں ) اور یہ کہ ہمیں غلطیوں کے ازالے پر توجہ دینا چاہئے۔ اس کے باوجود کہ رپورٹ میں طنز بھرے نشتر بکثرت تھے لیکن نہ تو نام لیکر کسی پر الزام لگایا گیا اور نہ ہی غیر ریاستی عسکریت پسندوں کی سرپرستی سے متعلق ریاستی اداروں کے کردار کی تاریخ کو ہدف بنایا گیا لیکن شاید پھر بھی ہماری خاکی قیادت کو یہ ہضم کرنا مشکل تھی ۔ جو خیال مزید پریشانی کا باعث ہے وہ یہ کہ آخر اکثریتی رپورٹ کیسی ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں کسی معاملے سے متعلق حتمی ذمہ داری کا تعین کیسے ممکن ہے ؟ جواب ہے کہ ایسا ممکن نہیں، صرف جی ایچ کیو حملے یا اسامہ بن لادن آپریشن جیسے غیر معمولی واقعات پر ایسے سوال اٹھتے ہیں لیکن انہیں جلد ہی پاتال میں دھکیل دیا جاتاہے۔ اب تو دم سادھے دانش کے ان موتیوں کا انتظار ہے جنہیں جنرل ندیم احمد نے اپنی رپورٹ میں نفاست سے پرویا ہے۔ افشا کردہ رپورٹ کا متبادل بیانیہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ کہ امریکی دوستوں کے بھیس میں ہمارے دشمن ہیں جنہوں نے ہماری لاعلمی میں یہ آپریشن کر کے گویا ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ؟ یہ کہ ایسی کوئی شہادت نہیں جس کے مطابق ریاست نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کیلئے کوئی خفیہ ساز باز کی لہٰذاہمارے قومی سلامتی اداروں کو تمام الزامات سے بری تصور کیا جائے ؟
یہ کہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد جسے پاکستان میں نشانہ بنایا گیا ہمارے لئے قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا لہٰذا اسے پکڑنا ہماری ترجیحات میں سے نہ تھا اور یہ کہ ہمارے یہاں دہشت گردی کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ جو عوامی عہدیداران ریاست اور اس کے شہریوں کے تحفظ پر مامور ہیں ان پر شخصی ذمہ داری عائد کرنا بعید از حکمت ہے۔ یہ کہ ہمیں حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے محافظوں کی غیر مشروط حمایت کرنا چاہئے۔ نہ کہ قومی سلامتی میں ناکامی پر کسی کی قربانی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ لیکن ان تمام متبادل مباحث میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہیں بلکہ ہمارے مستقبل کے لئے بھی ازحد خطرناک ہیں۔ان خیالات کا سر چشمہ اور طاقت اسی سازش سے بھرپور ذہنی رویّے سے پھوٹتے ہیں جو مذہبی جنونیوں کی گولی کا نشانہ بننے والی سولہ سالہ لڑکی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس استدلال کے ساتھ کہ آخر وہ اقوام متحدہ میں مسلم امہ کی ایک باغی آواز کیوں نہ بنی۔ کیا آج نیلسن منڈیلا کے رتبے میں کوئی فرق آ گیا جب اسی بوسیدہ اقوام متحدہ میں اس کی سالگرہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جہاں بیسیوں مرتبہ کمزور قوموں کا استحصال ہوا؟ کیا جسے کل حتمی طور پر صحیح مانا جاتا تھا آج صرف اس لئے غلط ہے کہ کچھ غلط لوگ اس کا علم بلند کئے ہیں ؟
ملالہ پاکستانی معاشرے میں مذہب کے نام پر درندگی کو مسترد کرنے کی علامت بن کر ابھری۔ وہ علامت ہے اس ہمت و جرأت کی جو ظلم سے اس وقت برسر پیکار ہوتی ہے جب ریاست شہریوں کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس معاملے کی ملکیت کے دعویداروں اور ایک ایسے متوازن معاشرے کی تصویر مزید اجاگر کریں کہ جہاں لوگ صحت، تحفظ ، تعلیم اور انفرادی آزادی جیسے امور میں دلچسپی لیتے ہیں، ہم ان تاریک ادوار میں روشنی کی اس علامت سے دستبردار ہونے کے درپے ہیں۔ صر ف اس لئے کہ باقی دنیا اس کے ساتھ ہے۔ کیا پھر بھی ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ظالم دنیا ہمارے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے ؟
اپنے ذہن میں سازشوں کا یہ جال مزید الجھانے سے ہم کوئی مقصد حاصل نہ کرسکیں گے۔ اگر دنیا نے ہمارے ایک ہیرو کو عزت دی ہے تو یا تو ہم اسی افتخار میں ملکیت کے دعویدار بن سکتے ہیں یا پھر اپنے اس ہیرو کے عزائم پر سوالیہ نشان ثبت کر سکتے ہیں، جس نے ایک شیطان صفت دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے یہ سب کیا۔ اگر ہمارا یہ ماننا ہے کہ اسامہ بن لادن والے واقعے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیں دغا دیا، تو سب سے پہلے قومی سلامتی نظام کے ان چہروں کا احتساب لازم ہے جنہوں نے ہمارے قومی سلامتی تصور میں امریکہ کو بطور دوست متعارف کرایا اور پروان چڑھایا ۔
ہم اپنی سرزمین پر اسامہ بن لادن کی موجودگی سے لاعلم رہے اور سی آئی اے کے نیٹ ورک نے ہمارے انٹیلی جنس اداروں کو اپنے ارادوں کی ہوا نہ لگنے دی۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کے سربراہان لازمی طور پر اس غفلت کے ذمہ دار ہیں اور انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے۔ ہم اپنی سرزمین پر فضائی نقل و حمل کی نشاندہی سے اس رات غافل رہے۔ فضائیہ کے سربراہ اس کے ذمہ دار ہیں اور انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے تھا۔
اگر ہماری قومی سلامتی کا ڈھانچہ پہلے تو القاعدہ کی دراندازی اور پھر پاکستانی سرزمین پر بیرونی طاقت کے حملے کا دفاع کرنے میں ناکام رہا تو ہمارے فوجی سربراہ کا نام لیا جانا اور مورد الزام ٹھہرانا ضروری تھا۔ یہ وہی فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا اور جو ہماری قومی سلامتی کے منظر نامے پر گزشتہ چھ سال سے براجمان ہیں۔بامعنی احتساب صرف ایک صورت میں ممکن ہے، افعال اور کوتاہیوں کے تناظر میں افراد کا احتساب، اگر ہم اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں تو یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم ان کے سربراہان کو صحیح معنوں میں جواب دہ بنائیں۔ اگر ہم نے غلطی کے تعین میں بے جا عمومیت کا رویہ اپنایا اور ذمہ داروں کے نام لینے سے گریزاں رہے تو ہم میں اور اس شتر مرغ میں کوئی فرق نہ رہے گا جو ریت میں سر دے کر ممکنہ خطرات سے منہ موڑ لیتا ہے۔
تازہ ترین