• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ترک ڈرامہ سیریز ”میرا سلطان“ نے دھوم مچا رکھی ہے، جیو ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ سوپ اوپرا سلطنت عثمانیہ کے دسویں اور سب سے طاقتور سلطان سلیمان کی داستان جلال و جمال ہے ۔یوں تو ڈرامے کا پلاٹ ،کردار ،کہانی ،مکالمے ،پروڈکشن ،سب ہی کچھ قابل تعریف ہے جس کی وجہ سے یہ ڈرامہ اب تک 31ممالک میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے ،تاہم ڈرامے کی جان حورم سلطان ہے ۔حورم ،جس کا اصل نام الیگزینڈرا تھا، ایک معرکے میں ہاتھ آتی ہے اور بادشاہ کے محل پہنچا دی جاتی ہے ۔محل میں پہلے سے سینکڑوں کنیزیں اور خادمائیں موجود ہوتی ہیں ،وہاں الیگزینڈرا کو یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ اگر کسی طرح بادشاہ کی نظر التفات اس پر پڑ جائے تو وہ کنیز سے ملکہ بھی بن سکتی ہے ۔ایک روز بادشاہ سلامت کنیزوں کو اپنا دیدارکروا رہے ہوتے ہیں اور تمام کنیزائیں ان کے آگے جھکی ہوتی ہیں کہ اچانک الیگزینڈرا ان کا نام پکارتی ہے اور پھر یکدم بے ہوش ہوکر بادشاہ کی بانہوں میں جھو ل جاتی ہے ،بادشاہ اسے اپنی خواب گاہ میں لے جاتا ہے ، اس کے حسن سے مسحور ہو جاتا ہے اوراسے حورم کا نام دیتا ہے ۔بعد ازاں یہ محترمہ اسلام بھی قبول کر لیتی ہیں اور بادشاہ کے بیٹوں کی ماں بن کر حورم سلطان کا درجہ پاتی ہیں۔
اس ڈرامے میں بادشاہ کے جو ٹھاٹھ دکھائے گئے ہیں، انہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ شان و شوکت اور کرو فر کیسے انسان کا دماغ خراب کرتی ہے ۔سبحان اللہ ،کیا شان ہوتی تھی بادشاہوں کی ،نہ جانے لوگ آج کل کے سائنسی دور کے دیوانے کیوں ہیں ،بادشاہوں والا زمانہ اچھا تھابشرطیکہ بندہ اس میں بطور بادشاہ ہی پیدا ہو۔جسے چاہا پھانسی پر لٹکا دیا جسے چاہا وزیر اعظم بنا دیا ،ہزاروں کنیزیں ،غلام ،سب ایک اشارے کے منتظر ،آقا کے موڈ کے تابع اورغلطی کی گنجائش ایک فیصد بھی نہیں ۔بادشاہ کی خوشامد کے ایسے نت نئے طریقے ایجاد کرتے تھے کہ بادشاہ سلامت کا دماغ مزید خراب ہو جاتا۔گو کہ بادشاہ کے گھر والے، والدہ، بہن، بیٹا، بھائی، بھی اہم ہوا کرتے تھے مگر اصل طاقت بادشاہ کے گرد ہی گھومتی تھی ،بادشاہ راضی تو سب راضی۔ آج کل سرکاری حکم ناموں پر لکھا جاتا ہے کہ ”during the pleasure of the President“ تو غالباً یہ اصطلاح بھی ایسے ہی وقتوں کے بادشاہوں سے مستعار لی گئی ہے۔
اگر خدانخواستہ بادشاہ ناراض ہو جاتا تو پھر کوئی دوست نہ کوئی رشتہ دار اہمیت رکھتا تھا،ایک پل میں گردن تن سے جداجو کہ سب سے رحم دلانا سزا سمجھی جاتی تھی ،ورنہ زندہ دیوا ر میں چنوا دینا،قلعے کی فصیل سے گرا دینا، ہاتھی کے پاؤں تلے روند دینا یا پھر چاروں ہاتھ پاؤں رسی سے بندھوا کر گھوڑوں سے زور لگوا کر کھنچوانا اور اس دوران اطمینان سے امرود کھانا جب تک مردود کی موت واقع نہ ہو جائے ،بادشاہ کی پسندیدہ سزائیں ہوا کرتیں۔حورم سلطان تو خوش قسمت تھی کہ کنیز سے ملکہ بن گئی ورنہ اس دور کے سلاطین کے پاس اس قدر بڑی تعداد میں کنیزیں ہوا کرتی تھیں کہ بادشاہ سب کو شرف ملاقات بخش ہی نہیں سکتا تھا اور وہ بیچاریاں محل میں ہی گھٹ گھٹ کر بوڑھی ہو جاتی تھیں۔اور کچھ سلاطین تو ایسے بھی گذرے ہیں جواپنی کنیزوں سے بور ہونے کے بعد انہیں مروا دیا کرتے تھے، ایسے ہی ایک بادشاہ نے تین ہزار کے قریب لونڈیاں دریا بُرد کرنے کے بعد نئی کنیزوں کا آرڈر دے دیا۔
آج کل ایسی بادشاہتیں تو نہیں رہیں البتہ ان کی جگہ آمریتوں نے لے لی ہے۔ چلی کا پنوشے، جرمنی کا ہٹلر، اٹلی کا مسولینی،رومانیہ کا نکولائی،کمبوڈیا کا پال پوٹ ،یوگنڈا کا عیدی امین،روس کا سٹالن،عراق کا صدام حسین،لیبیا کا معمر قذافی اور مصر کا حسنی مبارک ماڈرن بادشاہوں کی چند مثالیں گذری ہیں۔ ان ”مسیحاؤں“ کا کروفر بھی بادشاہوں والا ہوا کرتا تھا، پورے کا پورا ملک ان کے اشاروں پر ناچتا تھا،ان کی مخالفت کرنا تو دور کی بات ان کے خلاف سوچنابھی ممکن نہیں تھا، چانکیہ سٹائل میں جاسوسی کا ایسا جال بچھاتے کہ بچپن کا دوست بھی سرکاری کا مخبرنکلتا اوربندہ اس سے بے خبر رہتا۔اور ان کے مظالم کے کیا کہنے ،خود کو عوام کا نجات دہندہ ڈکلیئر کرنے والے ان آمروں نے اپنے دور حکومت میں لاکھوں لوگ گاجر مولی کی طرح کٹوائے اور سینہ پھلا کر یوں پھرتے رہے جیسے سینے میں عوام کا درد اٹھتا ہو!
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کی آمریتیں اتنی سفاک نہیں تھیں ورنہ جوزف سٹالن کی بدنام زمانہ ایجنسی NKVDنے سٹالن کے حکم پر بیس لاکھ روسی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ روس کے شہنشاہ نکولس زار دوئم کے دور کے آخری سال میں 170,000افراد جیلوں میں سڑ رہے تھے جبکہ 1938میں جب سٹالن کا بام عروج تھا ،جیلوں میں موجود افراد کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تھی جو کہ کل آبادی کا دسواں حصہ بنتی ہے ۔اسی طرح کمبوڈین آمر پال پوٹ نے اپنے دور میں لگ بھگ پندرہ لاکھ افراد قتل کروائے ،سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ موصوف کے دور میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہونے والے قتل، جبری مشقت، خوراک کی کمی اور بدترین طبی سہولتوں کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کمبوڈیاکل آبادی کا 25فیصد بنتی ہے۔ اپنے پیٹی بند بھائی صدام حسین کے جابرانہ دور اور جاسوسی نیٹ ورک کے تو ہم پاکستانی بھی چشم دید گواہ ہیں۔ جو تارکین وطن وہاں کام کرتے تھے ان کی بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ آپس میں ایک دوسرے سے صدام کے خلاف بات کر سکیں ،اس عراقی ”مسیحا“ نے 1986سے 1989 میں صرف تین سال کے دوران تقریباً ایک لاکھ کرد باشندوں کو قتل کروایا،جبکہ کل ملا کر صدام حسین نے کم از کم 250,000افراد کو موت کی نیند سلایا۔
دنیا میں بادشاہتیں ختم ہو گئیں اور ان کی جگہ نام نہاد لولی لنگڑی جمہوریتیں آگئیں، کوئی انہیں کارپوریٹ ڈیموکریسی کہتا ہے کوئی جعلی جمہوریت کہتا ہے اور کوئی ملاوٹ شدہ جمہوریت کا طعنہ دیتا ہے،ہم سب نے اس جمہوریت کے خلاف ہاتھوں میں نو نمبر کے چھتّر پکڑ رکھے ہیں اور جب بھی ہمیں موقع ملتا ہے حسب توفیق ہم ان چھتروں سے جمہوریت کی تواضع کرتے ہیں ۔اس سے ہماری روح کو تسکین ملتی ہے ،ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہم یہ جوتے براہ راست مغرب کے منہ پر مار رہے ہوں کیونکہ جمہوریت کا نظام انہی کا دیا ہے ۔ہمارے جیسے ملکوں میں جب یہ نظام جعلی ڈگری اور کن ٹُٹے سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آتا ہے تو ہمیں اپنی گالی کا مزید جواز مل جاتا ہے اوررہی سہی کثر باقیماندہ سیاستدانوں کی نالائقی پوری کر دیتی ہے ۔
اور یوں ایک ایسی فضا بن جاتی ہے جس میں جمہوریت کے خلاف دلیل دینے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی، فقط نعرہ کافی ہوتا ہے، ”جمہوریت چھوڑ، نام نہاد خلافت لا۔“ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے قوم کو پہلے بنیادی جمہوریت ،نظام مصطفی اور حقیقی جمہوریت کے سبز باغ دکھائے گئے مگر ان باغوں نے بجائے پھل دینے کے زمین سے خون اگلنا شروع کردیا جو کسی طور رکنے میں ہی نہیں آرہا۔یہ جو ہم لوگوں کا محبوب مشغلہ جمہوریت کو لتاڑنا اور سیاست دانوں کو گالی دینا ہے ، ہمیں اس کا متبادل بھی سوچ کر رکھ لینا چاہئے ۔جمہوریت کا متبادل فی زمانہ سوائے سفاک آمریت کے کچھ نہیں ،ویسی ہی آمریت میں جس میں سلطان اپنے تخت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بے رحمی سے کچل دیتا ہے ۔ہم میں سے جو لوگ آئے دن جمہوریت کو گالیوں سے نوازتے ہیں ،انہیں چاہئے کہ اگلے جنم میں جوزف سٹالن کے دور میں پیدا ہونے کی کوشش کریں اور حقیقی آمریت کے مزے لیں ۔اور جب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی تب تک جیو ٹی وی پر ”میرا سلطان “ دیکھیں اور حورم کے حسن کی داد دیں ، خواہ مخواہ عوام کو جمہوریت سے بد ظن نہ کریں !
تازہ ترین