• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موثر اور فعال بلدیاتی نظام ملکی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت اور اثر پذیری کی بدولت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔جب بلدیاتی ادارے فعال اور ملکی ترقی کے لئے متحرک ہوں تو ترقی کا عمل تیزی سے جاری رہتا ہے۔بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندے اگر ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی ادا کریں تو عوام کے معمولی نوعیت کے مسائل انکی دہلیز پر حل ہوجاتے ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ عوام کو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں،گلی محلہ کی سطح سے منتخب ہو کر بلدیاتی اداروں میں عوام کی نمائندگی کرنے والوں کو اس امر کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے چار یا پانچ سال کے بعد دوبارہ عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔لہٰذا وہ صبح و شام عوامی خدمت میں مصروف عمل رہتے ہیں۔بلدیاتی نظام صرف پاکستان کی جمہوریت کے لئے ہی اہم نہیں، دنیا بھر کی تمام جمہوریتوں نے اس کی اہمیت تسلیم کی ہے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے مختلف تجربات کے بعد عوامی مسائل کے حل کے لئے فعال بلدیاتی نظام ترتیب دیا ہے۔جس کے ذریعے عوام اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نمائندے منتخب کرتے ہیںاور انہی نمائندوں میں سے چیئرمین کونسلر یا میئر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔یورپ میں بلدیاتی نظام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لندن کے میئر کے انتخاب کی اہمیت برطانوی وزیراعظم کے انتخاب سے بھی زیادہ سمجھی جاتی ہے۔محمد صادق جو وزیر اعظم عمران خان کی مخالفت کے باوجود دوسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہوئے ان کے انتخاب کی وجہ یہی ہے کہ وہ لندن کے شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔انہوں نے لندن میں صفائی کے انتظامات سے لیکر ٹرانسپورٹ کے نظام تک ہر جگہ انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جس کے سبب آج وہ لندن کے مقبول ترین راہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردگان بھی بلدیاتی نظام کی پیداوار ہیں۔وہ 1990 کے عشرے میں استنبول کے میئر منتخب ہوئےاور اپنے حسن انتظام کی بدولت استنبول کو دنیا کا بہترین شہر بنا دیا۔اسی کارکردگی کی بنا پر عوام نے انہیں ترکی کا صدر منتخب کیا۔انڈونیشیا میں بھی بلدیاتی اداروں سے تربیت یافتہ جوکوویدو سربراہ مملکت کے منصب تک پہنچے۔انہوں نے 2004 میں بلدیاتی سیاست کا آغاز کیا۔2005 ءمیں وہ سورا کارتا کے میئر منتخب ہوئے۔اپنے سات سالہ دور اقتدار کے دوران انہوں نے شہر کی حالت بدل دی۔

2012 ء میں گورنر منتخب ہوئے اور 2014 ءمیں انڈونیشیا کے صدر کے منصب تک جا پہنچے،اسی طرح نیویارک کے میئر Rudy Giuliani نے نائن الیون کے حادثے کے بعد جس طرح شہر کو سنبھالا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے ایک باپ کی مانند شہر کا خیال رکھا۔الغرض بلدیاتی اداروں کی افادیت اور اہمیت کی مثالیں دنیا بھر میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔پاکستان میں بھی قیام پاکستان کے ساتھ ہی بلدیاتی اداروں کی ضرورت محسوس کی گئی اور انہیں دستور کے آرٹیکل 32اور 104کے تحفظ بھی فراہم کیا گیالیکن صحیح معنوں میں کبھی بلدیاتی نظام کو پنپنے کا موقع نہیں ملا۔قریب تاریخ میں جنرل پرویز مشرف نے بلدیاتی اداروں کو فعال کیا۔ان اداروں کی فعالیت کا یہ عالم تھا کہ کء منتخب اراکین اسمبلی نے اپنی نشستوں سے استعفے دے کر بلدیاتی اداروں کی سربراہی کا الیکشن لڑا اور ضلع ناظمین منتخب ہوئے۔اس نظام میں تعلیمی قابلیت کی شرط رکھنے کی وجہ سے سیاسی خاندانوں کے پڑھے لکھے نوجوان سامنے آئے اور ان کی آمد ملکی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔کراچی میں مصطفیٰ کمال نے حیرت انگیز کارکردگی دکھائی اور اپنی سیاسی جماعت بھی بنا لی۔ جناب شاہ محمود قریشی،جناب سید یوسف رضا گیلانی، میجر طاہر صادق،میاں عامر محمود جیسے قد کاٹھ کے لوگ اس نظام سے صیقل ہوکر نکلے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بلدیاتی اداروں کی بحالی میں عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کا رجحان حوصلہ شکن رہا۔جمہوریت کے لئے قربانیوں کا دعوی رکھنے والی جماعت ہو یا ایٹم بم بنانے والی پارٹی، یہاں تک کہ نیا پاکستان بنانے والوں نے بھی بلدیاتی اداروں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو متذکرہ بالا دونوں جماعتیں کرتی رہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا بلدیاتی اداروں سے خوفزدگی کا یہ عالم ہے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بلدیاتی سربراہوں کو انکے دفاتر میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ بھی اس حوالے سے تسلی بخش نہیں۔عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کیلئے فنڈز کے خرچ کرنے کی شرح افسوسناک حد تک کم رہی ہے۔پنجاب اسپیڈ کے نام سے معروف میاں شہباز شریف کے دور اقتدار میں تمام تر دعووں کے باوجود محض 41 فیصد فنڈز خرچ کیے جا سکے۔موجودہ ا سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے وزارت اعلیٰ کے دور میں 70 فیصد سے زیادہ فنڈز خرچ ہوئے لیکن ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ انکی وزارتِ اعلیٰ کے دوران پرویز مشرف کا رائج کردہ متحرک بلدیاتی نظام موجود تھا جس کے ذریعے گلی کوچوں اور محلوں میں فنڈز خرچ کئے گئے۔موجودہ حکومت کا ریکارڈ تو اور بھی غیر تسلی بخش ہے۔اور بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے کی وجہ سے ترقیاتی فنڈ خرچ کرنے کی شرح خطرناک حد تک کم ہے۔پوری قوم بجا طور پر یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم کب تک رکھا جائے گا۔ہمارے محترم وزیر اعظم دن رات لمبی لمبی تقریریں کرکے عوام کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ وہ موٹیویشنل اسپیکر یا مذہبی خطیب نہیں بلکہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں،قوم کو ان کے عمل کا انتظار ہے۔عمل کی طرف توجہ دیں۔ بلدیاتی اداروں کو ان کی روح کے مطابق بحال کریں۔اب باتوں کا وقت گزر چکا ہے اب عمل کا وقت ہے۔قوم وزیراعظم سے تقریر کے بجائے عملی اقدامات کی توقع کرتی ہے۔مہربانی کرکے دل بڑا کریں۔بلدیاتی ادارے بحال کریں۔تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔

تازہ ترین