• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس ملک کی نوجوان نسل اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور شرح خواندگی پر ہوتا ہے۔ اگر ملک میں خواندگی کی شرح سو فیصد کے لگ بھگ ہے تو وہ ملک بلاشبہ ترقی یافتہ ہے اور اس پر مزید ترقی کے دروازے کھلے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسکول جانے سے محروم رہنے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں پانچ سال سے نو سال تک کی عمر کے تقریباً دو کروڑ بچوں میں سے ایک چوتھائی اسکول جانے سے محروم ہیں۔ رپورٹ ہی کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں تعلیم کا بجٹ2.6 فیصد سے کم ہو کر2.3 فیصد رہ گیا ہے اور یوں پاکستان انٹرنیشنل ایجوکیشن انڈکس میں 120 ممالک کی صف میں سے 113 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسکول میں داخل نہ کرائے جانے والے بچوں کی شرح سب سے زیادہ 61 فیصد ہے اس لئے حکومت کو صوبے میں خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے) سندھ میں یہ شرح 53 فیصد، خیبر پختونخوا میں 51 فیصد اور بلوچستان میں47 فیصد ہے۔ یہ تو بچوں کی خواندگی کی شرح تھی لیکن اگر نوجوانوں کی بھی خواندگی کی شرح پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو صورتحال کوئی خوش کن نہیں ہے۔ نوجوانوں میں خواندگی کی شرح کے لحاظ سے بھی پاکستان سب سے کم سطح پر ہے اور اس کی شرح 70.7 فیصد ہے۔ 15 سے 24 سال کی عمر کے 79 فیصد لڑکے جبکہ 61 فیصد لڑکیاں خواندہ ہیں۔
یہ اعداد و شمار پاکستان کے تعلیم کے شعبے میں غریب افریقی ممالک سے بھی بہت پیچھے ہونے کی عکاسی کرتے ہیں لیکن یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ملک میں تعلیم کی شرح کو بڑھانے کے لئے آج تک کوئی سنجیدہ اقدامات ہی نہیں کئے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے توسب سے پہلے اسے تعلیم ہی کی طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ تعلیم کے بارے میں ہم دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں کوئی ایک نظام تعلیم اور مشترکہ نصاب ِ تعلیم ہی موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے ایک ہی شہر میں مختلف نظام اور نصاب ہائے تعلیم رائج ہیں۔ کہیں پر نظام ِ تعلیم او اور اے لیول کام کررہا ہے تو کئی ایک اسکولوں میں مقامی انگریزی نظام نے اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے۔ کئی ایک سرکاری اسکول، ماڈل اسکول کا درجہ اختیار کئے ہوئے ہیں تو کئی ایک سرکاری اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم بنا ہوا ہے جبکہ اسی شہر میں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایک ہی ملک میں نہیں بلکہ ایک ہی شہر میں مختلف نظام اور نصاب پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کا نظام ِ تعلیم شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو۔ اس نظام کا اصلی مقصد پاکستانی معاشرے کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان کے درمیان نفرت کی ایک ایسی دیوار کھینچ دینا ہے جس سے باہر نکلنا ممکن ہی نہ رہے۔
پاکستان میں موجودہ حالات میں جس چیز کی جانب سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ بلاشبہ تعلیم ہی ہے۔ جیو ٹی وی کی طرف سے کرائے جانے والے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کے 89 فیصد عوام کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ تعلیم کے فروغ ہی سے ملک میں دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے جس سے لوگوں کے تعلیم سے متعلق رجحان کی بھی واضح عکاسی ہو جاتی لیکن بدقسمتی سے اس پاک سرزمین میں سب سے کم توجہ ہی تعلیم کی طرف دی جاتی رہی ہے اور بجٹ میں معمولی رقم ہی مختص کی جاتی رہی ہے اور پھر ہمارے ہاں نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کو فراموش ہی کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر ہم نے ملک میں تعلیم کی شرح کو بلند کرنا ہے تو ہمیں ایک ہی نظام تعلیم اور ایک ہی نصاب تعلیم پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے ملک کے تمام اسکولوں میں چاہے وہ مدرسے ہوں یا پھر پرائیویٹ اسکول ان سب میں ایک جیسا نظام ِتعلیم متعارف کرانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ماہرین کی ایک کمیٹی بناتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کو وضع کیا جاسکتا ہے۔ جب تک ملک میں واحد نظامِ تعلیم اور واحد نصابِ تعلیم متعارف نہیں کرایا جاتا ملک میں یکجہتی اور اتفاق پیدا نہیں ہوسکتا۔ اتحاد اور یکجہتی کا سرچشمہ واحد نظامِ تعلیم اور واحد نصابِ تعلیم ہی ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تمام اہم مضامین چاہے وہ خیبر پختونخوا کے اسکول ہوں یا بلوچستان کے اسکول یا پھر یہ اسکول پنجاب میں ہوں یا پھر سندھ میں ان تمام اسکولوں میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین بالکل ایک جیسے ہونے چاہئیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی جانی چاہئے۔ یہ مضامین چھ سے آٹھ تک ہوسکتے ہیں اور پھر تمام ہی اسکولوں میں امتحانات بھی ان مضامین سے لیے جانے چاہئیں۔ ان مضامین میں قرآن کریم کی تعلیم اور اسلامیات یا دینیات کی طرح کے مضامین کو لازمی قرار دیا جاسکتا ہے البتہ جو مذہب میں دیگر طلبا کے مقابلے میں زیادہ گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ مزید مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تو ان کو انہی اسکولوں میں خصوصی بندوبست کرتے ہوئے مزید مذہبی تعلیم بھی انہی اسکولوں میں دی جاسکتی ہے (مدرسوں میں دی جانے والی مذہبی تعلیم کو وضع کردہ فارمولے کے تحت انہی اسکولوں میں دی جاسکتی ہے) اور اس طرح دیگر طلباء کے مقابلے میں مذہب میں خصوصی تعلیم حاصل کرنے کی بنا پر ان طلباء کو خصوصی سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے جاسکتے ہیں جو یونیورسٹیوں کی مذہبی فیکلٹیز میں داخلے کے وقت ان طلباء کے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور اس طرح یہ طلباء عام طلباء کی طرح پاکستان کے نصاب تعلیم کے تحت فارغ التحصیل ہونے کا بھی اعزا ز حاصل کرلیں گے اور عام طلباء سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی بنا پر اپنی صلاحیتوں کا بھی لوہا منواچکے ہوں گے اس طرح ان پر صرف مذہبی تعلیم ہی حاصل کرنے کا لیبل بھی نہیں لگے گا۔
یہ طلباء اگر چاہیں تو سائنس کی بھی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں اور اس طرح ان کی راہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی بھی کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوگی اور معاشرے میں بھی ان کو بلند مقام حاصل ہوگا۔ پورے ملک میں واحد نظام ِتعلیم اور واحد نصابِ تعلیم رائج ہو جانے سے ملک میں میرٹ کے نظام پر عملدرآمد کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
دوسری سب سے اہم بات ملک میں اس وقت انگریزی نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو نظام ِتعلیم دونوں کا ایک ساتھ جاری رہنا ہے۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن قومی زبان کو اس کا حق کبھی بھی نہیں دیا گیا ہے حالانکہ اردو زبان کی جڑیں عوام میں ہیں اور ان جڑوں کے بغیر پاکستان کا پودا کبھی بھی تناور درخت نہیں بن سکتا ہے۔قائد اعظم نے قیام ِ پاکستان کے بعد شدید علیل ہونے کے باوجود ڈھاکہ کا سفر کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا ”پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی“۔ 1973 ء کے آئین میں اردو کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے پندرہ سالوں کے اندر اندر اسے دفتری اور سرکاری زبان بنانے کا ذکر کیا گیا تھا لیکن یہ سب کچھ صرف آئین کا حصہ ہی رہا لیکن اس پر عملدرآمدآج تک نہ ہو سکا اور قوم کو پستیوں کی جانب زبان کے نام پر دھکیل دیا گیا جہاں سے اس کا نکلنا مشکل ہوگیا ہے بلکہ یہ قوم پستی کی ایسی گہرائیوں میں دھکیلی جاچکی ہے جہاں اسے پسماندہ افریقی ممالک کا ہم پلہ بنانے پر مجبور کردیا گیا ہے اس صورتحال سے کیسے چھٹکارا حاصل کیاُجاسکتا ہے اور شرح تعلیم کو کیسے بلند کیا جاسکتا ہے ؟ آئندہ ہفتے پڑھنا مت بھولیے۔
تازہ ترین