• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

المیہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز مختلف مسائل کی ایسی آماجگاہ ہے جس نے جہاں غریب ومتوسط طبقے کی زندگی مشکل بنادی ہے،وہاں یہی مسائل موقع پرستوں کیلئے سیم وزر میں اضافے کاباعث بن رہے ہیں،یہ اگرچہ عجیب لگتاہے کہ مسائل کس طرح اشرافیہ کی خوشحالی میں معاون ہیں ،تو مختصراً یہ کہتا چلوں کہ جیسے کراچی میں پانی ،سیوریج ،سڑکوں کی خستہ حالی وغیرہ کے نام پر یوں تو کروڑوں روپے کاغذوں میں خرچ کئے جاتےہیں،لیکن ان کا حل اس قدر ناپائیدار ہوتاہے کہ مختصرعرصے بعد یہ مسائل دوبارہ چیخ چیخ کراپنی موجودگی کا اعلان کررہے ہوتے ہیں ،یو ں قومی خزانے کے منہ دوبارہ کھول دئیے جاتے ہیں ۔اب چونکہ شفاف طور پر کام ہوتانہیں ،80فیصد سے زائد رقم سرکاری اور نجی لوگوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے،تو پائیداری کیسے آئے ،اور اگر پائیداری آئے گی تو پھر کس نام پر یہ فنڈز کا اجرا کرپائیں گے؟یہ تو چھوٹی مثال ہے ،ایسا امورِ مملکت کے ہر کام میں ہوتاہے،تو یوں ایسے مسائل جن سے عوام پریشان ہوتے ہیں وہ ان موقع پرستوں کےاطمینا ن کاذریعہ ہوتے ہیں، خوفنا ک مہنگائی سے آج پورا پاکستان لرزہ براندام ہے مگر،اسی مہنگائی سے شوگر ،آٹا ودیگر مافیاؤں کے علاوہ تاجروں کی دولت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اگرایک طرف یہ عالم ہے تودوسری طرف پورے ملک بالخصوص شہر قائدکو ان دنوں منشیات کی وبا کاسامنا ہے۔ اس مسئلے کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس گھنائونے دھندے کی سرپرستی اُس ادارے کی کالی بھیڑیں کررہی ہیں جس کا ایک اہم فرض ہی منشیات پر قابو پاناہے۔ اسپیشل برانچ کی جانب سے ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے کہ کراچی کے تمام اضلاع میں 363 منشیات کے اڈے قائم ہیں جنہیں پولیس کی سرپرستی حاصل ہے ، اس حوالے سے سرپرستی کرنے والے تمام افسروں اور اہلکاروں کے ریکارڈ مرتب کیے گئے ہیں اوران کےخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جہاں اس رپورٹ کے مرتب کرنے پر اسپیشل برانچ کی فرضی شناسی کی تحسین ہونی چاہئے وہاں سوال یہ ہے کہ کیا اس رپورٹ میں شامل کالی بھیڑیں گرفت میں آجائیں گی ، ان کی دیدہ دلیر ی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ان پولیس افسروں کو کس قدر اعلیٰ سطح پر اشیرباد حاصل ہے؟گزشہ روزڈی آئی جی ساؤتھ جاوید اکبر ریاض نےپریس کانفرنس میں بتایاکہ موچکو پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کرکے انکے قبضے سے بھاری مقدارمیں آئس ودیگر منشیات برآمد کرلیں، عالمی منڈی میں اِن منشیات کی مالیت 8 کروڑ روپے سے زائد ہے ۔اب اگر بروقت کارروائی نہ ہوتی تو یہ منشیات شہر میں پہنچ کرنوجوان نسل کو کس طرح تباہ کرتیں ؟یہ منشیات کراچی میں موجود منشیات کے مقابلےمیں آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ۔ کراچی میں منشیات فروش اپنا تسلط قائم کرچکے ہیں اور نوجوان نسل چرس، افیون، ہیروئن، بھنگ، آئس، کوکین، ایس ایل ڈی، گانجا، الکوحل، گٹکا، گلو (صمدبانڈ) سمیت منشیات کی 21سے زائد اقسام میں مبتلا ہوکر تباہی کا شکار ہو رہی ہے، اس سے خوفناک سماجی بحران جنم لے رہا ہے۔ ملک میں 24اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کی ترسیل اور فروخت روکیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ منشیات لاکھوں زندگیوں کو تباہ کر چکی ہیں؟ ہماری نوجوان نسل منشیات اور اس کی وجہ سے دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لئے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے۔ اس نشے نے لاکھوں خاندانوں کو تباہ کرکے پاکستان میں کئی کروڑ پتی و ارب پتی معتبر کہلاتے ہیں۔ ایک عرصے سے ہیروئن سے بھی زیادہ برق رفتاری سے ایک اور نشے نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جسے کرسٹل میتھ یا آئس کہا جاتا ہے، یہ نشہ کراچی میں کس قدر بھاری مقدار میں موجود ہے ؟اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں سرکاری اہلکار بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکے ہیں جہاں کرسٹل تیار کی جاتی تھی۔ یعنی یہ نشہ اگرچہ اسمگل ہوکر بھی یہاں آتا ہے لیکن اس شہر میں اسکی لیبارٹریاں بھی قائم ہیں۔ایک زمانے میں منشیات کی فروخت کےلئے کراچی کے مخصوص علاقے معروف تھے، اب یہ ہر جگہ دستیاب ہیں۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ نوجوان نسل کی تباہی پر جہاں حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی وہاں سیاسی جماعتیں بہ وجوہ اس کا ذکر نہیں کرتیں، علما بھی نالوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر نشے سے چور زندہ لاشوں کو دیکھتے ہیں لیکن کبھی اس مسئلے کو اپنے خطبے، وعظ یا تبلیغ کا حصہ نہیں بناتے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ کی روشنی میں منشیات فروشوں اور ان کے سرپرست پولیس افسروں کیخلاف کارروائی ہوتی ہے یا دیگر رپورٹوں کی طرح یہ بھی داخل دفترکردی جاتی ہے۔

تازہ ترین