• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب مینگل صاحب کے انتقال کی خبر آئی تو مجھے وہ زمانے یاد آئے جب غوث بخش بزنجو اور مینگل صاحب کی حکومت بنی جسے چند برس کے بعد ختم کردیا گیا، وہ اس زمانے میں جوان و خوبصورت اور باہر کے پڑھے لکھے رہنما تھے جو اپنے زمانے میں بھٹو صاحب کے کہنے پر سرداری سسٹم کو قطعی ختم کردیتے حالانکہ خود بھٹو صاحب نے سرداری نظام سندھ میں بھی ختم نہیں کیا ، مسعود کھدر پوش کی رپورٹ کو قابلِ توجہ نہ جانا۔ بات مینگل صاحب کی ہو رہی ہے، وہ کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئے۔

مجھے یہ پڑھ کر سندھ اور بلوچستان کیا، پورے ملک کے وڈیرے اور سرمایہ دار یاد آگئے جو اپنی ملکیت سے صدقہ کرتے ہوئے ایک اسپتال، ایک یونیورسٹی یا ایک آڈیٹوریم بنا جاتے ان لوگوں کے دنیا سے جانے کے بعد خاندانی جائیداد اور سرمائے کی تقسیم کے جھگڑے شروع نہ ہوتے ہیں جیسا کہ نواب آف بہاولپور اور خیرپور کے اب تک چل رہے ہیں۔ بلوچ قبیلوں میں بھی یہی وطیرہ ہے۔

ہمارے سامنے ہے ’’لمز‘‘ کا ادارہ جو یونیورسٹی بھی ہے اور تحقیق کا ادارہ بھی! میرے سامنے ہے، ڈاکٹر ادیب کا اسپتال اور ان کی غریبوں کیلئے خدمات! میرے سامنے ’’اخوت‘‘ کی مثال ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر ثاقب کی خدمات کو سراہتے ہوئے اعزاز دیا گیا۔ میرے سامنے حبیب یونیورسٹیہے، فاسٹ اور دائود انجینئرنگ یونیورسٹی اور عوام کی خدمت خاموشی سے کرنے والا ادارہ جس کے سربراہ شعیب سلطان خان اور ان کا ابوالفضل راشد باجوہ کہ جن علاقوں کی جانب سرکار نے توجہ ہی نہیں کی، وہاں 24 سال سے کام ہورہا ہے۔ اسی طرح حکیم سعید نے تو طب میں کمال کیا تھا مگر ان کی لائق بیٹی سعدیہ راشد نے یونیورسٹی کھڑی کردی۔

یوں تو سعودی عرب نے بھی ہمیں یونیورسٹی دی ہے مگر سلوک وہی قبائلی، عورتوں کا کیمپس الگ، مردوں کا کیمپس الگ! یہ تقسیم اتنی شدید ہے کہ لڑکا، لڑکی اکٹھے بیٹھ کر چائے بھی نہیں پی سکتے ہیں یہی حال لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کا جماعتی یونین نے کیا ہوا ہے جبکہ فیصل آباد ہو کہ خیرپور، لڑکے لڑکیاں اکٹھے صرف تعلیم ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ معاشرتی آداب بھی سیکھتے ہیں۔ لڑکے، لڑکیاں اور استاد دوستوں کی طرح سیاست سے لے کر ادب تک باقاعدہ ڈائیلاگ اور ذہنی آبیاری کرتے ہیں۔

آج سے 60؍برس پہلے جب ہم پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے، سب لڑکے، لڑکیاں ایک ہی کلاس میں ایک ہی پروفیسر کے سامنے بیٹھ کر لیکچر سنتے۔ مجلس اقبال اور ترجمے کی ورکشاپس میں پرانے اساتذہ کو بلا کر فیض حاصل کرتے تھے۔یونیورسٹیاں اور ادارے بنانے والوں کی حکومتیں چاہیں بدل جائیں مگر عوام اُنہیں یاد رکھتے ہیں۔ گنگا رام اسپتال، جانکی دیوی اسپتال، گلاب دیوی اسپتال، دیال سنگھ کالج اور لائبریری، کراچی میں پارسیوں نے یونیورسٹیاں، اسپتال اور لائبریریاں بنائیں۔ کراچی میں ایک زمانے میں خالق دینا ہال اور لائبریری تاریخی اہمیت کی حامل تھی اب وہاں چمگادڑیں بھی شاید نظرنہ آئیں۔

افغانستان میں بیس برس امریکی راج کرتے رہے اور وہ عیش کئے جو مغلوں اور انگریزوں نے انڈیا میں بھی نہیں کئے۔ ان کے اپنے پرچے اور ادارے بتا رہے ہیں کہ ہمارے امریکی فوجی، افغان بہادر قوم کو پیسے کھانے کی بزدلی اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘، سکھاتے رہے ہیں مگر مجھے تو ٹیگور کی کہانی کا کابلی والا باربار یاد آرہا ہے۔ اس کی شرافت، اس کی نجابت، انسان دوستی اور غربت میں بھی ان کو سلامت رکھنا یہ کیسے افغان فوجی، امریکی چھوڑ کر گئے کہ جنہیں سربکف رہنا سکھایا ہی نہیں گیا۔ ملک میں کوئی یونیورسٹی، اسپتال، فلاحی ادارہ کچھ بھی تو نہیں بنایا۔ ویت نام میں بھی شکست امریکیوں نے کھائی تھی مگر یہاں انہوں نے شکست نہیں کھائی وہ تو افغان فوج کو بےوقوف بنا کر گئے ہیں۔

ابھی افغان اور چین کی مفاہمت کی باتیں ہورہی ہیں مگر ذہنی طور پر نہیں معلوم کہ سنی ہیں کہ اہل حدیث، شیعہ کہ سعودی اسلام کے پیروکار مگر اب تو سعودیوں نے بھی خانہ کعبہ کے تحفظ کیلئے خواتین فوجی اہلکار تعینات کر دی ہیں، ایئرپورٹ پر بھی خواتین کام کررہی ہیں۔ دنیا بھر میں سارے اسلامی ممالک کسی نہ کسی مسلک پر قائم ہیں مگر سب خواتین کو مساوی درجہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

ہمارے طالبان جس کے بطن سے پیدا ہیں، اس کو لائقِ تعظیم نہیں سمجھ رہے اگر اسی طالبانیت پر اڑے رہے، روس اور چین سے امداد لے کر عورت کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو ان کو دنیا کے بیشتر ممالک تسلیم نہیں کریں گے۔ ابھی تو انہیں فرقہ پرستی کی زنجیریں توڑنی ہیں۔ غربت علم سے ختم ہوتی ہے۔ الاظہر، ملیشیاو مراکش کے علما سے روشن خیالی سیکھنی پڑے گی ۔

تازہ ترین