• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک کو ہم رحمتو ں اور برکتوں کامہینہ کہتے ہیں لیکن کیسی بدقسمتی ہے کہ اس رمضان میں حضرت بی بی زینب  اور حضرت خالد بن ولید کے مزاروں پر راکٹ داغے گئے اور عراق سے پاکستان تک بم دھماکوں کا سلسلہ بھی نہیں رک پایا۔ مجھے دمشق میں حضرت بی بی زینب کے مزار پر ایک سے زائدبارحاضری کا شرف حاصل ہے۔ آخری بار 2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملوں کی کوریج کے بعد میں بیروت سے بذریعہ سڑک دمشق آیا تو میرے لئے خاص طو ر پر ایک ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا گیا جو حضرت بی بی زینب کے مزار کے بالکل قریب تھا۔ حضرت بی بی زینب اسلامی تاریخ کی انتہائی بہادر اورقابل احترام خواتین میں سے ایک ہیں۔ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیٹی کے علاوہ حضرت امام حسین  کی بہن بھی تھیں۔ میدانِ کربلا میں یزید کی فوج کے خلاف لڑائی میں ان کے بیٹے عون اور محمد بھی شہید ہوئے۔ حضرت امام حسین اور ان کے 72 ساتھیوں کی شہادت کے بعد حضرت بی بی زینب کو گرفتار کرکے دمشق میں یزید کے سامنے لایا گیا تو یہاں پر زینب  بنت علی  نے جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک یادگار خطبہ فرمایا جس نے انہیں تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اسی بی بی زینب کے مزار پر میں نے دعا کی تھی کہ اے اللہ ! مسلمانوں کی آپس میں لڑائیوں کو ختم کروا دے اور کشمیر، فلسطین، عراق، لبنان اور افغانستان کے مسلمانوں پر اپنی رحمتوں کانزول فرما۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ چند سال کے بعد شام میں بھی وہی حالات ہوں گے جو میں نے عراق، لبنان اور افغانستان میں دیکھے۔ شام میں صدر بشار الاسد کی فوج اورباغیوں کے درمیان لڑائی میں لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں۔ بشارالاسد کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے جبکہ باغیوں کو امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک اور مسلم ممالک کی امداد مل رہی ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ شام میں القاعدہ اور امریکہ دونوں بشارالاسد کی مخالفت کر رہے ہیں۔ 19جولائی کو دمشق میں حضرت بی بی زینب کے مزار پرحملہ کیا گیا تو بشارالاسد کے حامیوں نے اس حملے کا الزام باغیوں پرلگایا۔ 22جولائی کو حمص میں شام کی فوج اور باغیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں اور اس دوران حضرت خالد بن ولید کے مزار پربھی راکٹ فائرکئے گئے۔ اس مزار پر راکٹ فائر کرنے کا الزام شام کی فوج پر عائد کیا گیا ہے۔ پاکستان ہو یا عراق، لبنان ہو یا شام جب بھی کسی مسجد یا مزار پر حملہ ہوتا ہے تو بہت سے لوگ اس حملے کو کافروں کی سازش قرار دے کرکہتے ہیں کہ کوئی مسلمان یہ کام کر ہی نہیں سکتا۔
میں بھی پہلے یہی سمجھتا تھا کہ کوئی مسلمان کسی مسجد یا مزار پر حملہ نہیں کرسکتا لیکن ذاتی تجربے اورمشاہدے نے مجھے اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ یہ رمضان کامہینہ ہے۔ اس مقدس مہینے میں کم از کم ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ سچ ضرور بولنا چاہئے۔ 2003میں عراق کی جنگ کی کوریج کے دوران جب میں کربلا پہنچا تو حضرت امام حسین کے مزار کے اندر دیواروں پر مجھے گولیوں کے نشانات نظرآئے۔ میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو مجھے بتایا گیا کہ صدام حسین کے دور ِ اقتدار میں فوج نے مزار کے اندرگھس کر باغیوں پرفائرنگ کی تھی اوریہ نشانات اسی فائرنگ کے ہیں۔ کچھ ہی دنوں کے بعد عراق میں امام ابو حنیفہ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی  کے مزاروں پر امریکی فوج نے بمباری کردی۔ لبنان میں اس خاکسار نے اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلافات کے نتیجے میں خانہ جنگی دیکھی اور پھر اسرائیل کو اس خانہ جنگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ لبنان میں اسرائیل کی بمباری کا نشانہ شیعہ اورسنی نہیں تھے بلکہ صرف مسلمان تھے۔ فلسطین کے علاقے غزہ میں بھی میں نے درجنوں مساجد پر اسرائیلی بمباری دیکھی اور پاکستان میں درجنوں مساجد پر خودکش حملے دیکھے۔ سچ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے مختلف مسلم ممالک میں کئی مساجد اور مزاروں پر بمباری کی لیکن حضرت امام حسین ، حضرت بی بی زینب، حضرت خالد بن ولید، حضرت علی ہجویری، عبداللہ شاہ غازی اور کئی دیگر بزرگوں کے مزاروں پر حملہ کافروں نے نہیں بلکہ خود کو مسلمان کہلوانے والوں نے کیا۔ ہوسکتا ہے کہ ان تمام حملوں کاماسٹر مائنڈ کوئی کافر ہو لیکن ان حملوں میں استعمال ہونے والے مسلمان تھے۔
رمضان المبارک میں حضرت بی بی زینب اور حضرت خالد بن ولید کے مزاروں پر حملے ایک طرف ہمارے اندرونی خلفشار اور اخلاقی پستی کا ماتم ہیں تو دوسری طرف کچھ مزید خطرات کی طرف اشارہ بھی کر رہے ہیں۔ آج ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ وہ لوگ ہیں جواسلا م کا نام لیتے ہیں، قرآن و حدیث کے حوالے بھی دیتے ہیں لیکن اپنے زورِ بیان سے مسلمان کو مسلمان کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ کفر اور غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میری امت میں ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں پڑھے لکھے بہت ہوں گے لیکن دین کی سمجھ رکھنے والے کم ہوں گے۔ علم اٹھا لیا جائے گا اور ہرج بہت زیادہ ہوگا۔ صحابہ  نے پوچھا کہ یہ ہرج کیاہے؟ فرمایا قتل۔ پھراس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے حلق سے نہیں اترے گا۔ پھرایسازمانہ آئے گا کہ منافق ، کافر، مشرک مسلمانوں کے ساتھ دین کے بارے میں جھگڑا کریں گے۔ حضرت ابوہریرہ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کی قریبی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلی تاریخ کے چاند کو کہا جائے گا کہ یہ دوسری تاریخ کا چاند ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ وقت قریب ہے کہ عراق والوں کے پاس دولت اورغلہ آنے پر پابندی ہوگی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یہ پابندی کس کی جانب سے ہوگی؟ فرمایا عجمیوں کی جانب سے ہوگی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپ نے فرمایا وہ وقت بھی قریب ہے جب اہل شام پر بھی ایسی پابندیاں عائد ہوں گی۔ پوچھا گیا یہ کس جانب سے ہوں گی؟ تو فرمایا اہل روم (مغرب والوں) کی جانب سے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر کی روایت کے مطابق مدینہ کا محاصرہ بھی کیاجائے گا اور پھر ایک عظیم جنگ ہوگی جس میں آخرکار فتح مسلمانوں کی ہوگی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اس آخری جنگ تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم فتنوں کے دور میں زندہ ہیں اور رمضان المبارک میں بھی ایک دوسرے کاخون بہا رہے ہیں، مزاروں پرحملے کر رہے ہیں اور جھوٹے فتوے جاری کر رہے ہیں۔ یقینا کئی فتنوں کے پیچھے دشمنانِ اسلام کا ہاتھ بھی ہوگا لیکن ان سازشوں کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں۔ حضرت بی بی زینب اور حضرت خالد بن ولید کے مزاروں پرحملوں کی مذمت ہمیں شیعہ یا سنی بن کر نہیں بلکہ صرف مسلمان بن کر کرنی ہوگی۔ وزیراعظم نوازشریف سے گزارش ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے زیراہتمام تمام مکاتب ِ فکر کے جید علما کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی تجویز پیش کریں۔ یہ تمام علما پاکستان اور افغانستان سے لے کر شام، فلسطین اور عراق سمیت تمام اسلامی ممالک کے اندر پائی جانے والی فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی عصبیتوں کاجائزہ لیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کو اتحاد قائم کرنے کی اپیل کریں۔ آج ہم مسلمانوں کے خلاف کفار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں کم از کم ہم مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کی سازشیں ختم کرادیں تو شاید ہمیں عزت کی موت نصیب ہو جائے۔
تازہ ترین