• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ سے باقی باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے امیرجماعت اسلامی سید منور حسن کے حوالے سے یہ اچھی خبر آپ کو سنانا ضروری ہے کہ ان کے نام شائع شدہ میرے دو خطوں کے جواب میں ان کا فون آیا ،میں نے بھی یہ خط بہت احترام اور محبت کے جذبے کے تحت لکھے تھے، سو ان کا ردعمل بھی عین اس جذبے سے معمور تھا۔ہم دونوں نے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ایک بات ان سے ہونے والی گفتگو سے ہٹ کر کرنا چاہتا ہوں جس پر کالم نہ لکھ سکنے کی وجہ سے مجھے اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس ہورہا ہے اور وہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائیں سنانے کے حوالے سے ہے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کا یہ ردعمل شرمناک ہے کہ ”یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے“ خدا سے ڈریں جن رہنماؤں کو سزائیں سنائی جارہی ہیں وہ اس محبت کی پاداش میں ہیں جس کا تعلق متحدہ پاکستان کی وفاداری سے تھا۔ اسی طرح مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی آمر غالباً یہ نہیں چاہتے کہ اسلام سے محبت کرنے والے طبقات تلوار کی بجائے ووٹ کے ذریعے برسراقتدار آئیں جن لوگوں نے مصر کی منتخب حکومت کا تختہ بنوک شمشیر الٹا ہے ان کا رویہ”طالبان“ ہے چنانچہ جس نفرت کا اظہار پاکستانی طالبان کے لئے کیا جاتا ہے یہ مصری”طالبان“ بھی اسی نفرت کے مستحق ہیں۔
اب آجاتے ہیں دوبارہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی طرف ،سید صاحب سے فون پر گفتگو کے ا گلے روز برادرم سجاد میر کے کالم میں ایک خط نظر سے گزرا جس کا عنوان تھا”سید منور حسن کا خط عطاء الحق قاسمی کے نام“ مجھے بہت حیرت ہوئی میں نے سوچا سید صاحب کو ”نامہ بر“ کی کیا ضرورت پڑگئی تھی ،وہ یہ خط براہ راست میرے نام بھی لکھ سکتے تھے۔ بہرحال غصے کی حالت میں یہ خط طوعاً و کرہاً میں نے پڑھا اور سارا خط پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ سید صاحب کی جماعت کے حوالے سے میں نے جن تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ تو میری غلط فہمی تھی کیونکہ اس خط میں کہی گئی75فیصد باتوں سے میں خود کو متفق پاتا تھا، مگر اچانک میری نظر کالم کے اختتام پر درج ایک جملے پر پڑی جس کا مفہوم یہ تھا کہ جو خط اوپر درج کیا گیا ہے وہ دراصل میں نے(سجاد میر) لکھا ہے یا دوسرے لفظوں میں سجاد میر نے یہ بندوق سید صاحب کے کاندھوں پر رکھ کر چلائی تھی تاہم اس کا ایک خوش آئندپہلو سجاد میر کا وہ بیان ہے جو انہوں نے مجھ تک پہنچایا اور وہ یہ کہ ان کے کالم کی اشاعت پر سید صاحب نے انہیں فون کیا اور کہا”آپ میرے خیالات کی اتنی گہرائی تک کیسے پہنچ گئے“ میرے لئے ان کی یہ بات خوشخبری کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ سجاد میر نے فنون لطیفہ کے حوالے سے سید صاحب کے منہ میں جو باتیں ڈالی تھیں ان کی حیثیت فروعی اختلافات سے زیادہ نہیں تھی جو مل بیٹھ کر حل ہوسکتے ہیں، تو سید صاحب ہوجائے ایک میٹنگ جس میں آپ کی نمائندگی لیاقت بلوچ، فرید پراچہ اور سجاد میر کریں تاکہ یہ عمومی تاثر زائل ہوسکے کہ جماعت اسلامی فنون لطیفہ اور تفریح کی دشمن ہے۔
اور اب ایک خط میرے محترم دوست پروفیسر ارشد جاوید کا جو سید منور حسن کے نام میرے خط کے حوالے سے ہے، مجھے اس خط کے مندرجات سے شدید اختلاف ہے مگر یہ نقطہ نظر بھی سامنے آنا چاہئے چنانچہ اسی ”جمہوری مجبوری“ کے تحت یہ خط یہاں درج کررہا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔
مکرمی و محترمی جناب عطاء الحق قاسمی صاحب!
السلام علیکم! یقین ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے
میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔ بعض معاملات میں اختلاف کے باوجود”جنگ“ میں سب سے پہلے آپ کا کالم پڑھتا ہوں اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔میرا خیال ہے کہ پاکستان میں اس فکاہی کام صرف آپ ہی کا ہوتا ہے۔ آج کا کالم”بکواس بند کرو“ شاندار تھا۔ آج کا یہ خط منور حسن صاحب کے نام آپ کے خط کے حوالے سے ہے۔
آپ کا خیال ہے کہ مذہبی جماعتوں کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ حقیقت اس کے خلاف ہے مذہبی جماعتوں کو سابقہ صوبہ سرحد میں حکومت ملی مگر بدقسمتی سے ان کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ یعنی یہ نیک لوگ تھے مگر اہل نہ تھے۔ حضر عمر کا قول ہے کہ حکمران کا صرف نیک ہوناکافی نہیں بلکہ اس کا اہل ہونا ضروری ہے۔ ویسے اس مرتبہ بھی مذہبی لوگوں کو وہاں کافی ووٹ ملے۔
آپ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ مذہبی لوگوں کو ووٹ اس لئے نہیں ملتے کیونکہ یہ فنون لطیفہ کے خلاف ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کو بدترین شکست ہوئی کیا یہ پارٹیاں ن لیگ سے کم فنون لطیفہ کی دلدادہ تھیں،جناب!ناکامی کی وجہ فنون لطیفہ سے عدم محبت نہیں بلکہ ناقص کارکردگی تھی۔
آپ کے خیال میں موسیقی ،مصوری، مجسمہ سازی کو منور حسن صاحب نے حرام قرار دیا ہے۔ کاش ان باتوں کی حرمت کے حوالے سے آپ نے اپنے بزرگوں سے پوچھا ہوتا۔ محترم اسلام کی ایک اپنی تہذیب ہے جس میں ناچ گانا جو آج کل محفلوں اور ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں نے تقریباً ہزار سال دنیا پر حکومت کی اس کی وجہ فنون لطیفہ نہ تھا بلکہ شاندار کارکردگی تھی۔ محترم آج بھی ہمارے ارد گرد فنون لطیفہ میں غرق اقوام ذلت اور پستی کی زندگی بسر کررہی ہیں ۔قاسمی صاحب اس بات سے آپ خوب واقف ہیں کہ ناچ گانے، مجسمہ سازی اور مصوری وغیرہ کو مولویوں نے حرام نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ترقی پسند اور روشن خیال دوست جس چیز کو ناپسندکرتے ہیں ان کو مولوی کا اسلام کہہ کر تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں ۔کاش یہ لوگ بہادر بنیں اور صاف کہیں کہ ہم اسلام کی فلاں فلاں پابندی /بات کو نہیں مانتے، دوسری دلچسپ بات یہ ہے ترقی پسنداور روشن خیال لوگوں کی عظیم اکثریت نماز کے قریب نہیں جاتی یہ کیسے مسلمان ہیں۔
آپ نے بجا فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کے کلچر کے اثرات سے نہیں بچا سکتا ۔ اب مغربی کلچر پاکستان میں آرہا ہے وہ اخلاقی خرابی جو مغرب میں100سال میں آئی ہمارے ہاں وہ25سال میں آچکی ہے۔ اب ہمارے ہاںBoyاورGirlفرینڈ کا کلچر عام ہورہا ہے۔ بے حیائی بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے پورے ملک سے 30تا40لوگ ہر روز مختلف مسائل کے لئے فون کرتے ہیں۔ لڑکیوں کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے ہی بھٹک چکی ہوتیں ہیں پھر شادی سے ڈرتی ہیں۔ قاسمی صاحب وہ لڑکیاں جو مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں ان میں سے اکثر بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہیں یہ سب دوسرے کلچر کے ا ثرات ہیں، بدقسمتی سے ہم مغرب کی اچھی چیز مثلاً ایمانداری اور سچ بولنا وغیرہ نہیں لیتے مگر ان کی بری چیزیں تیزی سے اپنا رہے ہیں جس سے طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
والسلام ……مخلص……ارشد جاوید
تازہ ترین