• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک میں بہت سی باتیں رسماً ادا کی جاتی ہیں جسے سفید چھڑی کا دن، یوم ارض، یوم سرطان ، یوم آبادی وغیرہ ان کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ہم بھی ہیں سواروں میں، ایک آدھ سیمینار واک یا قصر صدارت اور گورنر ہاؤس کی بتیوں کو گل کرنے سے مسائل حل ہوجایا کرتے تو ہم ہر سال کے بجائے ہر مہینے یہ دن منایا کرتے۔ اس میں سب سے اہم مسئلہ آبادی کی شرح نمو ہے جس کو ہم 2.3 فی صد سے کم کرکے ایک فی صد یا اس سے کم کرنے کے خواہاں ہیں یہ کوشش 1954ء سے ہورہی ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2012ء میں یہ شرح 2فی صد 1.83 فی صد ہوگی جو اب بھی جنوب مشرقی ایشیاء بشمول چین میں زیادہ ہے سوائے اس نکتے کے ہماری کوئی پاپولیشن پالیسی ہی نہیں۔ اس پر مجھے 58 سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا۔ 1955ء میں امریکی بیورو آف سینس اور دوسرے اداروں سے ایک سالہ ٹریننگ حاصل کرکے واپس آیا۔ اس وقت کراچی میں آل پاکستان سوسائٹی قائم تھی۔ ڈاکٹر جنید کامرس وزارت کے ڈپٹی سیکرٹری اس کے صدر اور میرے اردو کالج کے ایک شاگرد سید ریاض الدین اس کے اعزازی سیکرٹری تھے۔ انہوں نے خواہش کی کہ میں سوسائٹی میں آبادی پر ایک مضمون پڑھوں، میں نے حامی بھرلی، جلسے کی تاریخ مقرر ہوئی، کارڈ چھپے اور میٹروپول ہوٹل میں محترم ممتاز حسن سیکرٹری فنانس نے صدارت کی۔ جلسے میں میرے دفتر کے انچارج امریکی مشیر، میری منسٹری کے ڈپٹی سیکرٹری اور بعض سرکاری عہدیدار، ٹاؤن پلاننگ کے چیف، اساتذہ اور طلبا شریک ہوئے۔ میں نے پاکستان کی آبادی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ تجویز دی کہ حکومت کو آبادی کی پالیسی متعین کرنا چاہئے اور یہ کام متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے نمائندے مل کر کریں۔ ممتاز صاحب فاضل انسان تھے انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں مسئلہ آبادی پر ایک تقریر کی اور مقالے کو سراہا اور کہا اپنا مقالہ مجھے دو میں کمیشن مقرر کرادوں گا۔ میں نے بعض غلطیوں کی بنا پر بعد میں ان کو دینے کا وعدہ کیا۔ادھر امریکی مشیر نے اپنے نوٹ کے ساتھ مقالہ منسٹری کو بھیجا کہ یہ ایک ضروری عوامی مسئلہ ہے۔ اس کی پانچ سو کاپیاں چھپوا کر عوامی ردعمل معلوم کیا جائے۔ کچھ دنوں کے بعد منسٹری سے فائل آیا اس میں لکھا تھا کہ آبادی کا تعلق وزارت داخلہ سے ہے ان کی رائے معلوم کی جائے (2) مضمون نگار اگر چاہئے تو اس کو شائع کرے مگر سرکاری عہدہ نہ لکھے (3) مسٹر سبزواری نے اس کی اجازت حکومت سے نہیں لی اور وہ سرکاری ملازمین کے ضابطے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے کیوں نہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے (4) تمام افسران کو مطلع کریں کہ وہ سرکاری اجازت کے بغیر ایسی غلطی کے مرتکب نہ ہوں۔ امریکی مشیر نے مجھ سے کہا اس کا جواب لکھو، مگر دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنی غلطی کی معافی مانگ لو بات کو طول نہ دو۔ میں نے خاموشی اختیار کی، یہ فائل اب تک میرے پاس ہے اگر اس وقت کمیش بن جاتا تو نہ تو آبادی اتنی تیزی سے بڑھتی نہ ناخواندہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا نہ بعض خوردنی اشیاء کی قلت ہوتی اور نہ بے روزگار نوجوانوں کی فوج امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتی۔
انگریزوں نے برصغیر میں جو چند اچھے کام گو اپنے مقاصد کے لئے کئے مگر ان سے اہل شہر کو بھی فائدہ پہنچا اس میں ریلوں کی تعمیر، پنجاب میں نہروں کا جال اور مردم شماریوں سے ملک کے اعدادو شمار کا جمع کرنا شامل ہے۔ ہندوستان میں پہلی باضابطہ مردم شماری 1881ء میں ہوئی۔ اس کے بعد ہر دس سال میں ہوتی رہی بھارت میں اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان میں 1951ء، 1961 میں تسلسل قائم، تیسری مردم شماری 1972، چوتھی 1981 میں اور پانچویں 1998ء میں ہوئی یعنی چھٹی اب معرض التوا میں ہے۔ مردم شماری ایک آئینی ضرورت ہے، اسی سے پارلیمینٹ اور اسمبلیوں میں نشستوں کا تعین ہوتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے وفاق سے فنڈ ملتے ہیں۔ اسکولوں ، اسپتالوں ، پولیس کے تھانوں کا دارومدار صوبوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق ہوتا ہے۔مجھے احساس ہے کہ حکومت کے سامنے بہت سے سنگین مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں مگر مردم شماری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت ملک کی آبادی 18کروڑ سے 20 کروڑ بتائی جارہی ہے جبکہ گزشتہ الیکشن میں 18سال کی عمر سے زائد ووٹروں کی جو فہرستیں بڑی چھان بین سے تیار ہوئیں ان کے مطابق مارچ 2013ء میں کل ووٹروں کی تعداد 8,43,65,051 تھی۔ یہ گویا ملک کی نصف آبادی تھی اس لحاظ سے ملک کی کل آبادی 17کروڑ کے قریب ہوتی ہے۔ اس وقت اگر مردم شماری کرائی جائے تو دھاندلی کی گنجائش بہت کم ہے چونکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہر صوبے، ہر شہر اور ہر قصبے بلکہ ہر قریہ کے مرد و زن کی نصف آبادی کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ اگرچہ وقت گزر گیا تو پھر ایسا وقت 2018ء تک نہیں ملے گا یعنی مردم شماری کے درمیان 20 سال کا خلا ہوگا۔ میرے خیال میں بلدیاتی الیکشن سے پہلے یا فوراً بعد مردم شماری کرالی جائے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم تفصیلی طور پر غور کر کے اپنی آبادی کی بنیادی پالیسی وضع کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں نہ صرف وقتی آبادی کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ آنے والی آبادی کا خیال رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ ہمیں بھی ایک طرف تو آبادی کی شرح گھٹانے پر غور کرنا ہوگا اور بڑھتی ضروریات بالخصوص خوردنی اشیاء گندم ، چاول، دالوں، گھی، خوردنی تیل اور دودھ ،شکر کے ساتھ علاج معالجے اور تعلیم کی سہولتوں ، ٹرانسپورٹ کی دستیابی کا خیال کرنا ہوگا۔ اس وقت بھی زرخیز زمینیں رہائش گاہوں میں تبدیل ہورہی ہیں اس رجحان کو بھی روکنا بہت ضروری ہے۔ امید ہے کہ حکومت اس مسئلے کو بھی اپنی اولین ترجیح میں شامل کرے گی۔
تازہ ترین