• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی ترقی کا اشاریہ انسانیت کے لئے پاکستان کے ایک سپوت ڈاکٹر محبوب الحق کی دین ہے۔ روایتی طور پر معیشت کو بے جان اعداد و شمار کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق بیسویں صدی کے ان ماہرین معیشت میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے آنے ٹکے کے بہی کھاتوں سے اوپر اٹھ کر معاشی مکالمے کو انسانی خدوخال عطا کئے اور یہ ثابت کیا کہ معیشت بے حس نہیں ہوتی۔ معیشت کی حرکیات بھی انصاف کے اصولوں کے تابع ہیں۔ معیشت کی حقیقی ترقی انسانی محرومیوں کو دور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ معیشت پیداوار اور منافع کی مساوات نہیں، آنسو اور مسکراہٹ میں توازن کا نام ہے۔ معاشی سرگرمی میں دردمندی شامل نہ ہو تو منافع کی ایسی دوڑ جنم لیتی ہے جس میں کپاس اور گنے کے کھیتوں میں غلاموں پر کوڑے برسائے جاتے ہیں، 1929ء کی کساد بازاری رونما ہوتی ہے، بنگال میں قحط نمودار ہوتا ہے، بھوپال کی فیکٹری چند سکّوں کے لئے سیکڑوں انسانوں کو جان سے محروم کر دیتی ہے، ہر برس ہزاروں مزدور چین کی کانوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ مشرق بعید میں تیز رفتار معاشی ترقی کا بلبلہ ایک روز اچانک پھٹ جاتا ہے۔ معاشی ترقی میں بے یقینی کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ٹکسال کو انسانی سرمائے کے معیار سے جوڑا جائے۔ کھیت میں کھڑی فصل کسی قدرتی آفت کا شکار ہو سکتی ہے۔کارخانوں میں رسد اور طلب کا گراف ہچکولے کھا سکتا ہے لیکن تعلیم کے نتیجے میں رویوں اور مہارتوں میں پیدا ہونے والی روشنی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے معاشی ترقی کو تمدنی زاویوں اور سیاسی ترجیحات سے جوڑ کر انسانی ترقی کی پیمائش کے اصول دریافت کئے۔ نوبل انعام یافتہ معیشت دان امرتیا سین نے قدرتی آفات اور طرز حکمرانی میں باہم تعلق دریافت کرنے میں ڈاکٹر محبوب الحق ہی سے استفادہ کیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ 2012ء کے لئے انسانی ترقی کی سالانہ رپورٹ میں 186ممالک شامل کئے گئے ہیں اور ان میں پاکستان 146 درجے پر ہے۔ بھارت کا نمبر 136ہے۔ 1996ء تک پاکستان اور بھارت انسانی ترقی میں شانہ بشانہ تھے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ بیان یہ ہے کہ چین اور بھارت میں گزشتہ بیس سال کے دوران فی کس معاشی پیداوار کی سطح میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صنعتی انقلاب کے نقطہ عروج پر یورپی ممالک کو فی کس معاشی پیداوار کو دگنا کرنے میں چالیس برس درکار تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کس رفتار سے ترقی کر رہے ہیں۔ تیس برس قبل چین میں صرف16 فیصد آبادی غربت سے محفوظ تھی اور آج چین کی صرف 16فیصد آبادی غریب ہے۔ دنیا بھر میں غربت کے موضوع پر کام کرنے والے ادارے بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ 2005ء سے2010ء کے دوران پچاس کروڑ افراد کو غربت کے دائرے سے باہر نکلنے کا موقع ملا ہے۔ ان انسانوں کی اکثریت چین، بھارت اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد نے اتنے کم عرصے میں غربت کے عذاب سے نجات نہیں پائی۔ یہ اس عالمگیریت کا خاموش انقلاب ہے جسے پاکستان کا جذباتی انقلابی اٹھتے بیٹھتے گالیاں دیتا ہے۔
معاشی ترقی کی بات ہو تو بریٹن ووڈ کانفرنس کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ چوالیس ممالک کی یہ کانفرنس دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد منعقد ہوئی تھی اور اس کا مقصد مستقبل میں پائیدار معاشی ترقی کی تجاویز سوچنا تھا۔ حسب توقع کانفرنس میں بہت سے بابو لوگ بھی بیٹھے تھے۔ یہ لوگ سرکار دربار کی تعریف میں بودے دلائل گھڑنے کے استاد ہوتے ہیں اور بدترین حالات کی خوشنما تصویر کشی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ بریٹن ووڈ کانفرنس میں بھی ہر موضوع پر بابو لوگ گھڑا گھڑایا جواب دیتے تھے کہ صاحب ”بالآخر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا“۔ عظیم معیشت دان کینز (Keynes) بھی کانفرنس میں موجود تھا۔ اس نے ”بالآخر“ کے اس بے ہودہ استعمال پر جھنجھلا کر کہا کہ ”بالآخر ہم سب مر جائیں گے“۔ اس صاحب فکر کا اشارہ یہ تھا کہ بالآخر جو کچھ ہونا ہے، اسے آج کی نااہلی اور عدم کارگزاری کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ دیکھئے میر درد یاد آگئے
آخر الامر آہ کیا ہو گا
کچھ تمہارے بھی دھیان پڑتی ہے
میر درد نے تو فلسفے اور تصوف کا سوال اٹھایا تھا۔ معیشت کو فلسفے کے تجرد سے غرض نہیں۔ پیٹ میں بھوک کی چبھن بہت حقیقی ہوتی ہے۔ علاج سے محرومی پر بہنے والے آنسوؤں کی کاٹ اس قدر ٹھوس ہوتی ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محبوب الحق اور امرتیا سین جیسے دانشور کہتے ہیں کہ معاشی ترقی کے لئے سڑکیں بنانا، کارخانے کھولنا، سرمایہ کاری کی راہیں کھولنا اور تجارت کے مواقع پر غور و فکر کرنا تو بہت ضروری ہے لیکن معیشت کے ان تمام ڈھانچوں کو قومی تعمیر کے لئے اینٹ پتھر سمجھنا چاہئے۔ ان ٹکڑوں کو جوڑنے والا مواد ان تمدنی رویوں سے حاصل کیا جاتا ہے جنہیں شفاف حکمرانی، انسانی احترام، رواداری، علم دوستی، معاشرتی حقیقت پسندی اور عالمی تعاون جیسی اصطلاحات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ شمال میں چین اور مشرق میں بھارت کی دھرتی پر معاشی ترقی کی جو برکھا برس رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری معیشت اڑیل ٹٹو کی طرح آگے چلنے کا نام کیوں نہیں لیتی؟
اس ایک سوال کے بہت سے زاوئیے ہیں اور اتنے ہی جوابات ہیں۔ اگر ہمیں منافقت بھرے اعلانات اور کھوکھلے نعروں سے فرصت ملے تو ان جوابات پر ایک ایک کر کے سوچنا چاہئے۔ مثلاً مانع حمل اشیاء کے ایک اشتہار پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پابندی لگانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اشتہار پاکستان کے قوانین کے منافی ہے۔ خاکسار نے ابلاغیات کا استاد اور صحافی ہونے کے ناتے برتھ کنٹرول کا یہ اشتہار غور سے دیکھا ہے ۔ اس کی اداکاری خام اور مکالمے بھونڈے ہیں۔ ڈائریکشن بدمذاقی کا نمونہ ہے ۔ ایک اشتہار کے طور پر اس کا پیغام غیر موٴثر ہے تاہم ان سب خامیوں کے باوجود اسے کسی طرح فحش قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس میں ایک بھی لفظ یا اشارہ غیر ملفوف نہیں۔ اگر یہ اشتہار غیر قانونی اور غیر آئینی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ضبط تولید ہی کو غلط سمجھتے ہیں نیز یہ کہ اس کے روکنے والے معمولی معاشرتی بصیرت سے بھی عاری ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں 1.80 فیصد سالانہ اضافے کی شرح کے ہوتے ہوئے کوئی حکومت شہریوں کو اسکول، اسپتال اور روزگار کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ فحاشی اور مفروضہ اقدار کی دہائی دے کر حقیقت پسندانہ معاشرتی ترجیحات اختیار نہیں کی جا سکتیں۔ ساٹھ برس میں سوا تین کروڑ کی آبادی سے اٹھارہ کروڑ تک پھیلاؤ بزرگوں کی دعاؤں سے نہیں، حیاتیاتی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ ان حیاتیاتی سرگرمیوں کو منضبط کئے بغیر معیار زندگی اور انسانی سرمائے میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ فحاشی ایک موضوعی تصور ہے ۔ ہر شہری اپنے لئے ثقافتی اقدار کے انتخاب کا استحقاق رکھتا ہے، شہریوں پر کوئی مخصوص ثقافتی نمونہ مسلط کرنے سے ثقافتی آزادی کا تصور ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ قانون سازی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ریاست نواہی کا تعین کرتی ہے، معروفات کا معاملہ فرد کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بچوں کو ایک خاص عمر تک مخصوص موضوعات تک رسائی نہیں دی جاتی جس کا مقصد خود ان کی نفسیاتی اور جسمانی حفاظت ہوتا ہے۔ ایک نارمل معاشرے کو نابالغ آبادی کی ناگزیر حساسیت کا یرغمالی نہیں بنایا جا سکتا۔ پیمرا کے اس برخود غلط اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم معیشت اور معاشرت کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ہمارے بہترین دماغ اگر ملک جھوڑ کر باہر جانا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ صرف معاشی بدحالی نہیں، ہم تمدنی سطح پر بھی ایسی ناقابل برداشت گھٹن پیدا کر رہے ہیں جسے محض ترکی ڈراموں کی مدد سے دور نہیں کیا جا سکتا۔
تازہ ترین