• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قائم تحقیقی فائونڈیشن نے دنیا کی آبادی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین پیش گوئی پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں2100سال تک دنیا کی آبادی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے جو اہلِ دنیا کیلئے کوئی اطمینان بخش نہیں ہے ۔ خام مال کی کمی، زمینی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی تکون نے اہل دنیا کیلئے اسے بری خبر سے تعبیر کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب تک پہنچنے کی امید ہے۔

میری معلومات کے مطابق ہر سیکنڈ دنیا کی آبادی میں258 نفوس کا اضافہ ہورہا ہے،میرا مطلب ہے ایک گھنٹے میں دنیا کی آبادی میں دولاکھ اٹھائیس ہزار ایک سوپچپن افراد کا اضافہ ہورہا ہے اس سے ثابت ہوا کہ ایک سال میں ہماری اس دنیا میں تراسی ملین افراد مزید شامل ہو جاتے ہیں۔ اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال پاکستان کی لگ بھگ آدھی آبادی کا اضافہ ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے انسانی طرز زندگی پر کیا اثرات مرتب ہونگے، اگر آج دنیا کے تمام افراد ترقی پذیر ممالک کے درمیانی طبقے کی طرح زندگی بسر کریں تو ہمیں وسائل کے حصول کیلئے ایسا ہی ایک نئی زمین کا ٹکڑا درکار ہوگا،1950سے لیکر1960کے عشرے تک دنیا بھر میں بچوں کی اوسط ’’ پیدائش‘‘ نصف ہوگئی تھی یعنی پانچ بچوں سے کم ہوکر ڈھائی(2.5) رہ گئی تھی اور یہ خاندانی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا، اس وقت جو عالمی آبادی ہے وہ دراصل اس شعبے میں ہونے والی ترقی اور آبادی میں بڑھتے ہوئے بے تحاشہ اضافے پر قابو پانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے ورنہ دنیا کی آبادی موجودہ سطح سے کہیں زیادہ ہوسکتی تھی،تاہم اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی آبادی2025تک نوارب تک پہنچ جائے گی، غریب ممالک جن کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اگر وہاں کی صورت حال میں بہتری نہ آئی اور آبادی پر قابو پانا مشکل ہوگیا تو یہ زمین تنگ سے تنگ ہوتی جائے گی، اور میرے حساب سے وہاں کی صورت حال پر قابو پانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان معاشروں میں مستقبل میں بھی بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اگر دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اس صدی کےاواخر تک خطہ ارض پر انسانوں کی تعداد27بلین ہوجائے گی جس کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ موجودہ آبادی سے چار گنا زیادہ۔ محض نائیجیریا کی آبادی دوبلین سے تجاوز کرجائے گی جبکہ جرمنی اور ہالینڈ کی آبادی نصف ہوجائے گی۔

اب جہاں چند برس میں دنیا کی آبادی8ارب ہونے کو ہے وہاں دو عشروں میں خوراک کی قیمت میں دوگنا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، اگر عالمی ماہرین اور رہنمائوں نے دنیا میں خوراک اور خورونوش کے نظام کی اصلاح کیلئے اقدامات نہ کئے تو اگلے بیس سال میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں دوگنا بڑھ جائیں گی یعنی2030تک اہم فصلوں کی اوسط قیمت میں ایک سو اسی(180) فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے اس اضافے میں ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ آبادی کا اضافہ بھی شامل ہے ۔ماہرین کی رائے میں اگر ہم زمین کی ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے دبائو، خوراک کی بڑھتی قیمتوں اور زمین، پانی وتوانائی کی کمی سے نمٹنا چاہتے ہیں تو خوراک کے نظام کی اصلاح اور تنظیم نو ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق شمالی افریقہ کو قحط کے باعث خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔عالمی بینک نے بھی خبردار کیا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں لاکھوں انسانوں کو غربت میں دھکیل رہی ہیں اس سے بالخصوص خواتین اور بچے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ دنیا میں ہر ساتواں فرد روزانہ بھوک کا شکار ہورہا ہے جبکہ دنیا ہر ایک کی خوراک مہیا کرنے کی طاقت اور اہلیت رکھتی ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ موسم میں ہونے والی تبدیلیوں سمیت اور خام مال میں کمی آنے والے عشروں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنیں گی۔

ایسا بچہ جس کی آمد کے ساتھ ہی دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہوجائے گی کی، پیدائش15جون2025کو متوقع ہے، جہاں دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہاں اس صدی کے اختتام تک مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر کی نصف آبادی سے زیادہ ہوجائے گی، مسلم دنیا اس بات پر ہی پھولی نہیں سماتی کہ دین اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ ان کی تعلیم ،ٹیکنا لوجی اور سائنس کا یہ عالم ہے کہ عرب دنیا میں فی باشندہ کتاب کا تناسب ہر بارہ ہزار افراد کیلئے ایک کتاب ہے، صرف سعودی عرب میں تمباکو نوشی کرنے والے ہر سال5ارب ریال کا تمباکو پی جاتے ہیں جس کا وزن 40 ہزار ٹن بنتا ہے جبکہ یہ رقم سعودی عرب کی طرف سے چاول درآمد کرنے کی رقم کے برابر ہے، مسلمان ممالک کو چاہئے کہ وہ خوراک کی پیداوار اور منڈیوں کے نظام کو بہتر بنائیں ،نئے قوانین وضع کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی غریب بھوکا نہ رہے کہ غریب آدمی مرنے سے نہیں بلکہ بھوکا مرنے سے ڈرتا ہے۔میں نے شاید غلط سنایا پڑھا تھا کہ ہرانسان کو مناسب سمجھ بوجھ یا عقل سلیم اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اپنے فرائض زندگی یا دنیاوی معاملات کو ان کی روشنی کے مطابق حل کرے۔

تازہ ترین