• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوش قسمتی سے نامعلوم ڈپٹی کمشنر صاحب کی نایاب ڈائری کا اگلا ورق بھی ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے ۔ جناب رقم طراز ہیں :”جب تک میں اس پسماندہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر رہا، میری عاجزانہ انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر وہاں جرائم کی شرح برائے نام رہی۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی یا بلیک مارکیٹنگ وغیرہ تو دور کی بات ہے ، خالص اشیائے خوردونوش کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ خود میرے گھر میں چاول ، گندم اور دیگر اجناس کی بوریوں کے علاوہ فروٹ کی پیٹیوں، گوشت اور سبزیوں کے ڈھیر لگے رہتے۔ خصوصاً رمضان المبارک میں تو فراوانی ہذا دگنی ہو جاتی۔امن وامان کی مثالی صورتحال کے باوجود میں ہر تحصیل کے دور دراز مقامات پر جا کر کھلی کچہریاں منعقد کرتا، جہاں مقامی معززین میری انصاف پسندی اور عادلانہ اقدامات کی توصیف میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔گاہے عوام کی طرف سے شکایات بھی کی جاتیں، مثلاًہماری گلی میں بارش کا پانی کھڑا ہو جاتا ہے یا سیکرٹری یونین کونسل بھینسوں کے ڈیرے پر بیٹھ کر دفتری امور نمٹاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں ایسی درخواستوں پر سخت ایکشن لیتا اور موقع پر ہی احکام جاری کر دیتا۔ ایک دفعہ کھلی کچہری کے دوران بدمزگی بھی پیدا ہو گئی۔ وضع قطع سے تعلیم یافتہ اور سلجھا ہوا نظر آنے والا ایک بزرگ شخص کھڑا ہو گیا اور مجھے مخاطب کر کے گویا ہوا”جناب عالی! ان کھلی کچہریوں کا انعقاد پولیس اور محکمہ مال والے کرتے ہیں، جہاں ان کے ٹاؤٹ آپ کی خوشامد میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جبکہ عوام کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا“ پولیس کے جوانوں نے اسے روکا مگر بابا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا ” حضور والا! ضلع بھر میں چوروں اور ڈاکوؤں کی چاندی ہو گئی ہے ۔ جرائم کی کاغذی شرح اس لئے کم ہے کہ پولیس مقدمات درج ہی نہیں کرتی۔ سرکاری دفاتر میں رشوت اور محکمانہ غنڈہ گردی عام ہے ۔ سرکاری ٹھیکوں میں کرپشن اور حصہ بقدر جثہ کا اصول معمول کا چلن بن گیا ہے ۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ،مہنگائی اور تجاوزات جیسے جن ننگے ناچ رہے ہیں اور غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں“ … پولیس اہلکار اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے جبکہ ایس ایچ او اور تحصیلدار صاحب نے قریب آ کر مجھے تسلی دی کہ سر،آپ پریشان نہ ہوں ۔یہ بابا پاگل ہے اور سارا دن سڑکوں پر بھی ایسی ہی خرافات بکتا رہتا ہے ۔ یہ سن کر میری جان میں جان آئی ورنہ بابے کی بکواس نے تو میرا خون ہی خشک کردیا تھا۔ میں نے بابے کو پاگل خانے میں داخل کرانے کا حکم دیا اور سختی سے ہدایت کی کہ آئندہ کوئی ایسا بدتمیز شخص کھلی کچہری میں نہ گھسنے پائے۔
ضلع کے ایس پی صاحب بڑے ہی نیک آدمی تھے۔ میری ان سے خوب نبھی اور کبھی بھی ہمارے درمیان اختلاف نہ ہوا۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی رہی، وہ میرا خیال رکھتے اور میں ان کا۔ دیگر محکموں کے افسران بھی شریف لوگ تھے،البتہ بدقسمتی سے سیشن جج صاحب کے ساتھ میرے تعلقات کچھ زیادہ قابل رشک نہ رہے۔ آپ بڑے ہی قنوطی قسم کی شخصیت تھے، جنہیں دیانتداری کے کسی بہت ہی زہریلے بچھو نے کاٹ رکھا تھا ۔ تب عدلیہ اور انتظامیہ علیحدہ نہ ہوئی تھیں، سو ہمیں اکثر ان سے واسطہ پڑتا۔ انہیں دوسروں کو خوف خدا یاد دلانے کا بڑا شوق تھا مگر خود آپ کو کبھی میں نے ضلع کچہری کی مسجد میں نماز ادا کرتے نہ دیکھا۔ سیشن جج صاحب میرے ماتحت مجسٹریٹ صاحبان کے فوجداری مقدمات میں کئے جانے والے فیصلوں اور احکام کے خلاف اپیلیں سنتے۔ موصوف کی قوت شامہ میں کوئی ایسی ٹیکنیکل خرابی تھی کہ انہیں اکثر ان مقدمات کی تفتیش اور فیصلوں میں کرپشن کی بُو محسوس ہوتی۔ بعض اوقات تو آپ انتظامیہ اور پولیس کے کردار پر انتہائی سخت ریمارکس دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ پولیس نے بغیر نکاح نامہ ساتھ رکھے کسی میاں بیوی کو آوارہ گردی کے دوران پکڑ کر حدود آرڈیننس کے تحت اندر کر دیا تو جج صاحب ان ملزمان کی درخواست ہائے ضمانت کی سماعت کے دوران سیخ پا ہو جاتے۔ آخر ایک دن میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا ”دیکھیں سر! ادارے عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں تو ہی گلشن کا کاروبار بطریق احسن چل سکتا ہے، ورنہ طرح طرح کے مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں “ بھلا ہو جج صاحب کا کہ انہوں نے خود ہی اپنا تبادلہ کروا کے مجھے شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا موقع دیا۔
صدر مملکت جنرل ضیاء الحق نے فیصلہ کیا کہ زندہ قوموں کی طرح ملک بھر میں یوم آزادی پورے جوش و خروش اور دھوم دھام سے منایا جائے گا۔ عوام کی طرف سے ہماری حکومتوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ انہیں جس طرف لگا دیا جائے ، چل پڑتے ہیں ۔ تمام اضلاع میں زورشور سے تیاریاں شروع ہو گئیں ۔ ہم نے بھی خوب انتظامات کئے اور شہر بھر میں رنگ برنگی جھنڈیوں ،قومی پرچموں اور ملی نغموں کی بہار آ گئی ۔ 14/اگست کی صبح میں نے ایک پروقار تقریب میں پرچم کشائی کی جبکہ رات کو ایک مقامی ادبی تنظیم کے تعاون سے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خدا معلوم کہ یہ حبس زدہ موسم کی گھٹن تھی یا کوئی اور گھٹن کہ لوگ اس ادبی تفریح کے لئے دیوانہ وار گھروں سے نکل آئے ۔ میں صدر محفل کی کرسی پر براجمان تھا اور میرے سامنے بلدیہ کا گراؤنڈ مرد و زن سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں نے حکومتی حکم کے تحت منتظمین کو ہدایت کردی تھی کہ فقط یوم آزادی اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے نظمیں وغیرہ پڑھی جائیں گی اور کسی کو کوئی غیر اخلاقی یا سیاسی قسم کا شعر سنانے کی ہر گز اجازت نہ ہو گی ۔ مشاعرہ بڑا پر امن جا رہا تھا کہ ایک مریل اور چرسی سے شاعر کی باری آ گئی ۔ اس نے ڈائس پر پہنچتے ہی اپنی شکل کی طرح انتہائی واہیات نظم شروع کردی۔ مجھے پنجابی کی وہ پوری نظم تو یاد نہیں البتہ شروع کچھ اس طرح کے گھٹیااشعار سے ہوتی تھی کہ
عجب دن نیں ، عجب راتاں نیں
نہ گلشن وچ گلاب مہکن
نہ دشت اندر سراب دہکن
نہ شام ویلے شراب لبھے
نہ کوئی سوہنی کتاب لبھے
دھت تیرے کی ، وہ تو براہِ راست مرد مومن کے اس فلاحی دور کو ہِٹ کر رہا تھا۔ میں آگ بگولہ ہوگیا، یا حیرت! شراب اور کتاب تو اس اصلاحی دور میں بین ہیں پھر اسے کیسے جرأت ہوئی کہ ان نامراد چیزوں کے ہجر کا دکھ سر عام سناتا پھرے ۔ منتظمین کے ترلوں کے باوجود میں مشاعرے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر آگیا۔ یہ مجاہدین کا دور تھا ، کوئی ملالہ یوسف زئیوں کا عہد نہیں کہ جس کا جی چاہے منہ اٹھا کر تلوار پر علم یا کتاب کی برتری کے دعوے کرتا پھرے ۔ میں نے ایس پی صاحب سے باہم صلاح مشورہ ہوکر اس شاعر کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور دیگر دفعات کے تحت پرچہ دے دیا۔ کم بخت کو لمبی قید کے علاوہ بیس کوڑوں کی سزا ہوئی“۔
تازہ ترین