• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 2006کا ذکر ہے، میں رابطہ عالمِ اسلامی کی دعوت پر فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے آیا تھا، منیٰ میں رابطہ عالمِ اسلامی کی قیام گاہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ میرے ساتھ والے کمرے میں عظیم کشمیری رہنما سید علی گیلانی قیام پذیر ہیں تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میرے اندر اُن سے ملنے کا اشتیاق بڑھا تو میں اُن کے کمرے تک کھینچا چلا گیا، جب میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے اپنے گلے لگا لیا، میرا ماتھا چوما اور کہا کہ ’’پاکستان سے آئے ہو، میرے لئے تم بڑے عزیز ہو جس سرزمین سے تم آئے ہو وہ ہر کشمیری کی منزل ہے، ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ میں ان کی محبت کا گرویدہ ہو گیا۔ صبح کی نماز ہو یا عشا کی، کانفرنس ہال ہو یا ارکانِ حج کی ادائیگی، ان سے علیک سلیک ہوتی، ان کی ’’بیٹھک‘‘ میں زانوئے تلمذز ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ تحریکِ آزادیٔ کشمیر بارے میں آگاہی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔ اُن کی گفتگو سے پاکستان سے محبت کی خوشبو آتی تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کا دل پاکستان کے لئے مضطرب ہے، وہ کسی بھی پاکستانی سے بڑے پاکستانی تھے، وہ کشمیریوں کی جدو جہدِ آزادی میں کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں پاکستانی حکمرانوں کے ناقد تھے۔ سید علی گیلانی سمجھتے تھے کہ پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا سودا کر دیا ہے لہٰذا اِس سے جتنی جلدی جان چھڑالی جائے بہتر ہے۔ 2007میں نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں سید علی گیلانی نے پرویز مشرف کے مسئلہ کشمیر کے حل کے فارمولے کو مسترد کر دیا تھا۔ ملاقات تلخی کے ماحول میں ختم ہوئی، وہ پاکستان کے حکمرانوں کو تحریک آزادیٔ کشمیر میں ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہتے تھے۔ سید علی گیلانی سے ملاقات میری زندگی کا انتہائی خوشگوار لمحہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سرزمینِ حجاز پر تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے حقیقی لیڈر سید علی گیلانی سے ملاقات کا موقع دیا۔ دو ہفتے کے قیام میں ان سے بےتکلفی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ مجھے ’’نواز‘‘ ہی کہہ کر بلاتے اور اپنی محبت کا اظہار کرتے۔ سید علی گیلانی کبھی پاکستان تو نہ آسکے لیکن وہ ہمہ وقت پاکستان کو یاد کرتے رہتے اور پھر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر منوں مٹی تلے دفن ہو گئے۔

سید علی گیلانی اپنی زندگی کے آخری 12سال بھارتی فوج کی نگرانی میں گھر میں نظر بند رہے۔ وفات پر بھارتی فوج نے ان کے گھر کی طرف جانے والے راستوں پر رکاوٹیں اور خار دار تاریں نصب کرکے لوگوں کو اُس طرف جانے سے روک دیا۔ سید علی گیلانی کی وصیت تھی کہ وہ جب بھی اس دنیا سے جائیں تو ان کو شہدائے کشمیر کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ان کے ورثا سید علی گیلانی کو شہدائے کشمیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت اُن کے آڑے آگئی۔ وہ سید علی گیلانی سے اس حد تک خوفزدہ تھی کہ اُن کو شہدائے کشمیر کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی اور اپنی نگرانی میں رات کے پچھلے پہر حیدر پورہ کے قبرستان میں دفن کرا دیا۔ وہ قیامِ پاکستان سے قبل تعلیم کے حصول کے لئے لاہور آئے اور مولانا مودودی کے حلقۂ احباب میں شامل ہو گئے، سید علی گیلانی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سری نگر چلے گئے۔ پہلی بار 1962میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آواز بلند کرنے پر گرفتار ہوئے اور 13ماہ قید رہے۔ 1965میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور 22ماہ جیل میں رہے، 1987میں سیاست چھوڑ کر حریت کا راستہ اختیار کر لیا۔ تحریکِ آزادی میں بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، سید علی گیلانی نے اپنی سوانح حیات سمیت 30کتب تصنیف کیں۔

سید علی گیلانی 29ستمبر 1929کو ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور میں پیدا ہوئے۔ 92سال کی عمر میں نظر بندی کے دوران وفات پائی، وہ پاکستان سے کشمیر کے الحاق کے سب سے بڑے حامی تھے۔ سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن بھی رہے، انہوں نے جدوجہدِ آزادی کے لئے ایک الگ جماعت ’’تحریکِ حریت‘‘ بھی بنائی تھی جو کُل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ سید علی گیلانی ’’رابطہ عالمِ اسلامی‘‘ کے بھی رکن تھے۔ یہ رکنیت حاصل کرنے والے وہ پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ قبل ازیں برصغیر پاک و ہند سے سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی جید شخصیات رابطہ عالمِ اسلامی کی رکن رہ چکی ہیں۔ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت تھے اور علامہ اقبال کے مداح تھے۔ انہوں نے اپنے دورِ اسیری کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’رودادِ قفس‘‘ تحریر کی ہے۔ اُن کی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزرا۔80کی دہائی میں قاضی حسین احمد کے جلسوں میں ایک ہی نعرہ لگتا تھا ’’کشمیر کی آزادی کا راستہ گیلانی کا راستہ‘‘۔ تحریک آزادی کشمیر کے لئے جیل جانا ان کا معمول تھا۔ ان کی ایک کال پر پورا کشمیر بند ہو جاتا تھا۔ ان کے جلسوں میں ایک ہی نعرہ گونجتا ’’پاکستان زندہ باد‘‘۔ ان کا جینا مرنا پاکستان تھا۔ پرویز مشرف کی پالیسی پر برملا ناراضی کا اظہار کرتے رہے۔ سید علی گیلانی کہا کرتے کہ مجھے بھارتی اتھارٹی طعنہ دے رہی ہے کہ پاکستان کے حکمران تو آپ سے ملنا نہیں چاہتے لیکن میرا ان کو جواب ہوتا کہ ’’ہم تو پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کی تحریکِ مزاحمت کا استعارہ تھے۔ کشمیری عوام انہیں اپنا مرشد سمجھتے تھے۔

پاکستان کے 74ویں یومِ آزادی کے موقع پر سید علی گیلانی کو ’’نشانِ پاکستان‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ صدر عارف علوی نے ایوانِ صدر میں حریت رہنماؤں کو یہ ایوارڈ دیا۔ سید علی گیلانی تین مرتبہ 1972، 1977اور 1987میں کشمیر کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سید علی گیلانی نے کُل جماعتی حریت کانفرنس سے طویل وابستگی کے بعد 30جون 2020کو علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ سید علی گیلانی نے اپنی خود نوشت رودادِ قفس کے صفحہ 179پر تحریر کیا ہے ’’جب قدرت کی رحمت سے ہم دریائے جہلم کی اچھلتی اور اٹھلاتی لہروں کی طرح پاکستان کے وجود کے ساتھ ہم آغوش ہو جائیں تو ہماری قبروں پر آکر ہمیں یہ مژدہ روح پرور سنا دینا تاکہ عالمِ برزخ میں ہماری ارواح سکون و طمانیت سے ہمکنار ہو جائیں‘‘۔

تازہ ترین