• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبارک ہو، آپ کی صاحبزادی نے ہماری یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان پاس کر لیا ہے، آپ ایڈمن سیکشن میں جاکر فیس کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور چاہیں تو آج ہی فیس جمع کرا کر داخلہ کنفرم کرا لیں۔ میرے لئے بہت بڑی خبر تھی، میں نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا، اسے مبارکباد دی اور فوری طور پر یونیورسٹی کے ایڈمن سیکشن پہنچا۔ داخلہ فیس، سمسٹر فیس سمیت تمام اخراجات معلوم کئے تو پیروں تلے سے زمین نکل چکی تھی۔ میری مجموعی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہی میری بیٹی کی ماہانہ فیس بتائی گئی تھی۔ تاہم میرے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھ کر ایڈمن آفیسر نے مجھے ایک سال کی یکمشت فیس کی ادائیگی پر 20فیصد ڈسکائونٹ کی آفر کردی لیکن میرے لئے یہ بھی ممکن نہ تھا، لہٰذا سوچنے کے لئے وقت مانگا اور بیٹی کے ساتھ واپسی کی راہ لی۔ میرا دوست مجھے اپنی بیٹی کے کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں ایڈمیشن اور تعلیمی اخراجات کے حوالے سے خود پر گزرنے والی قیامت سے آگاہ کررہا تھا۔ یہی حال کراچی کی اکثر نجی جامعات کا ہے، اس وقت کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، سرکاری جامعات کی انتہائی قلت ہے جس کی کمی پوری کرنے کے لئے بڑی تعداد میں نجی تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہیں۔ تعلیمی معیار کا یہ عالم ہے کہ یونیورسٹی جیسی درسگاہیں 4سو گز کی عمارت سے لے کر ہزار گز کے بنگلوں تک میں قائم ہیں جہاں تعلیم مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے۔ کچھ نجی جامعات اعلیٰ معیار کی تعلیم بھی فراہم کررہی ہیں لیکن ان کے تعلیمی اخراجات ہر طالب علم کے لئے برداشت کرنا مشکل ہے لیکن میں کراچی میں سرکاری سطح پر قائم ایسی جامعات کے بارے میں بھی جانتا ہوں جو صحیح معنوں میں یونیورسٹی کی تعریف پر پورا اترتی ہیں، جیسا کہ کراچی یونیورسٹی 12سو ایکڑ رقبے پر محیط یہ یونیورسٹی پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جو 1951میں قائم ہوئی اور آج اپنے قیام کے 70برس مکمل کر چکی ہے، جہاں کے فارغ التحصیل طالب علم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اہم عہدوں پر تعینات ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے اس عظیم تعلیمی ادارے یعنی کراچی یونیورسٹی جانے اور وہاں کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا جن سے کراچی یونیورسٹی کے حوالے سے کافی کچھ جانا۔ کراچی یونیورسٹی میں اس وقت کم و بیش 43ہزار طلبہ و طالبات اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، یہاں کی فیس اتنی معقول ہے کہ ایک لوئر مڈل کلاس اور غریب آدمی بھی اپنے بچوں کو یہاں باآسانی تعلیم دلوا سکتا ہے، اگر طالب علم داخلہ فیس ادا کرنے سے قاصر ہو تو ایڈمیشن فنڈ کے ذریعے ایک طریقۂ کار کے تحت اس کی داخلہ فیس ادا کردی جاتی ہے، کراچی یونیورسٹی میں 10سے زائد فیکلٹیز میں 70سے زائد مضامین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسرز کی نگرانی میں بہترین معیار کی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیار کے 20سے زائد ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن جیسے عالمی شہرت یافتہ سائنسدان کی سربراہی میں ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی شامل ہے۔ ان تمام اداروں میں دنیا کی بہترین معیار کی تحقیق کی جاتی ہے جو عالمی تحقیقی جرائد میں شائع ہوتی ہے۔ جامعہ کی انتظامیہ نے طالب علموں کو کم خرچ میں اعلیٰ معیار کی تعلیم کی فراہمی کے لئے موجودہ تعلیمی سال میں تقریباً 8ہزار طلبہ و طالبات کو داخلے دیے، یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں 4ہزار زیادہ ہے۔ بلاشبہ یہ طالب علموں کے لئے بہترین کاوش ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں بیٹری سے چلنے والی 6خوبصورت بسیں طالب علموں کو 12سو ایکڑ پر محیط یونیورسٹی کے ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جانے کے لئے موجود ہیں جن کی تعداد میں جلد اضافہ کیا جائے گا۔ بجلی کی بچت کے لئے کئی ڈپارٹمنٹس کو سولر پاور پر منتقل کردیا گیا ہے جبکہ مزید کئی ڈپارٹمنٹس کو سولر پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ یونیورسٹی جو ماضی میں مالی خسارے سے دوچار تھی، اب معاشی طور پر مستحکم ہے۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک خواجہ سرا کو ایل ایل ایم کرنے کے لئے داخلہ دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے طالب علموں کو یونیورسٹی کے خرچے پر دبئی میں ہونے والے بین الاقوامی تائی کوانڈو مقابلے میں شرکت کے لئے بھیجا گیا ہے، کراچی یونیورسٹی کی ایم بی اے، ایم پی اے، کیمیکل انجینئرنگ، سوشیالوجی اور بائیو میڈیکل کی ڈگریاں پاکستان میں اعلیٰ ترین معیار رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں پورے پاکستان کے طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں اس ادارے میں سالانہ 10سے 15ہزار داخلے ممکن ہو سکیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ طالب علم کم فیس میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔

تازہ ترین