• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یورپ اور امریکہ میں بکثرت گھومنے اور مقامی باشندوں کے ساتھ بات چیت اور سماجی روابط کے دوران ایک چیز سامنے آتی ہے کہ باہر سے آکر آباد ہونے والے مختلف مذاہب اور خطوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے بارے میں مقامی باشندوں کا طرز عمل کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ سنجیدہ مزاج اور پڑھا لکھا طبقہ چونکہ جذبات کو قابو میں رکھنے کا فن جانتا ہے لہٰذا بات کچھ اس طرح گھما پھرا کر کرتا ہے کہ عام آدمی بین السطور پڑھنے میں ناکام رہتا ہے اور انہیں ملٹی کلچر ازم کا علمبردار سمجھنے لگتا ہے جبکہ نوجوان اور جذباتی قسم کے لوگ اس قسم کا تردد نہیں کرتے اور دو ٹوک بات آپ کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملٹی کلچر ازم کی بات کرنے والے نرے احمق ہیں۔ برسوں سے رنگ برنگے انسانوں اور ان کے عجیب و غریب تمدن کی یلغار سے مغرب کو سوائے خواری کے کیا حاصل ہوا ہے؟ وہ برملا کہتے ہیں کہ بطلِ ارض (Son of the soil) کی فوقیت کو دنیا مانتی ہے اور ہم کیسے بدنصیب ہیں کہ اپنی ہی دھرتی پر اس حق سے محروم ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو ہمارے سروں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ وہ ہماری زمین‘ ہمارے وسائل اور روزگار کے ذرائع پر قابض ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے حصے کی ملازمتیں بھی ان کو جارہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جوں جوں معاشی بدحالی بڑھتی جارہی ہے‘ تارکین وطن کی آؤ بھگت میں بھی تیزی آرہی ہے‘ حالانکہ جب تک مقامی آبادی کے معاش اور روزگار کے مسائل حل نہ ہوجائیں‘ غیر ملکیوں کی آمد پر مکمل پابندی عائد کردینا چاہئے اور یہ ایمبارگو خواہ سو برس تک کیوں نہ چلتا رہے پچھلے برس یورپی یونین کے ممالک میں اس حوالے سے ایک پول ہوا تھا۔ مقامی باشندوں سے ان کے دو عدد سنگین ترین مسائل کی نشاندہی کیلئے کہا گیا تو تقریباً سبھی نے تارکین وطن کے مسئلہ کو پہلے نمبر پر رکھا تھا۔راقم نے برطانیہ کے ساحلی قصبہ برائیٹن میں چرچل اسٹریٹس کے پاس سڑک کی مرمت کا کام ہوتے دیکھا۔ جہاں اصلی اور نسلی گورے بھاری ہتھوڑے سڑک پر اس تندی سے چلا رہے تھے کہ چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ بدقسمتی سے پوچھ بیٹھا کہ وہ اس قدر سخت کام کیوں کررہے ہیں؟ قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھ کر ان میں سے ایک بولا‘ ”اس لئے کہ ہماری جابز پر تم لوگوں نے قبضہ کررکھا ہے“۔ تجسس انصاف کو خوار کرتا رہتا ہے۔ اسی قسم کی غلطی ایک دفعہ اٹلی میں بھی ہوگئی تھی۔ پبلک ٹوائلٹ کے باہر تختی لگی تھی کہ یہاں صفائی کا کام خواتین کے ذمہ ہے۔ سینیٹری ورکر کو دیکھا تو قتالہ عالم۔ صبر کا دامن ایک بار پھر ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ پوچھ بیٹھا ”یہ عالم اور یہ جاب؟ کیا آپ کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملا؟“ بولی ”ملا تھا‘ مگر تم جیسے نے اچک لیا۔ اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر سے ایکسچینج کرلیتے ہیں“۔عام لوگوں کا خیال ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا اور انہیں خاص طور پر نشانہ ستم بنایا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر میں اس انداز فکر کے خلاف ہوں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا‘ فی الوقت مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ معاش اور روزگار کا ہے۔ جو ان کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کررہا ہے لہٰذا مذہب و ملت کی تفریق کئے بغیر وہ ہر تارک وطن سے نفرت کرتے ہیں۔ چند برس پیشتر سویڈن کی سب سے بڑی مسجد ”مالمو اسلامک سینٹر“ (Malmo`s Islamic Centre) پر حملہ کے ملزم نے واضح طور پر کہا تھا کہ اس کا نشانہ کوئی مسلمان نہیں تھا۔ وہ تو تارکین وطن کا دشمن ہے‘ انہیں مارنا چاہتا ہے‘ خواہ وہ کسی دین دھرم سے ہوں۔ پچھلے چند برسوں سے ”یورپ فار یورپینز“ کا نعرہ خاصا مقبول ہوا ہے۔ مقامی باشندوں کے حقوق کی علمبردار دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ بلغاریہ‘ ڈنمارک‘ فرانس‘ جرمنی‘ ہنگری‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ ناروے اور سوئٹزر لینڈ سمیت تقریباً سبھی یورپی ممالک میں اس حوالے سے خاصا کام ہورہا ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر راقم کو اسکنڈے نیوین ممالک میں چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ جہاں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے کئی لوگوں سے بات ہوئی۔ جن میں اہل نظر پاکستانی بھی تھے اور صاحب فکر مقامی بھی۔ معاش کیلئے نئے نئے جانے والے پاکستانی نوجوانوں کے مخصوص مسائل سے قطع نظر پڑھی لکھی پاکستانی کمیونٹی اور مقامی یورپین بعض امور پر بڑی حد تک متفق ہیں۔ ہمارے ڈائیلاگ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ 9/11 سے پہلے مغرب میں مسلمانوں کا وقت نہایت امن و سکون سے گزر رہا تھا۔ اس خونی واقعہ نے ان کیلئے مسائل پیدا کئے اور آنکھیں بند کرکے انہیں دنیا بھر کی برائیوں کی جڑ قرار دے دیا گیا۔ حقیقت جاننے کی کوشش کسی نے نہ کی اور سب پروپیگنڈہ کی رو میں بہہ گئے۔ 22 جولائی2011ء کے سانحہ ناروے کے بعد بھی سب کا دھیان اسلامی دنیا اور جہادیوں کی طرف گیا۔ میڈیا کا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ سب پیغمبر اسلامﷺ کے نازیبا خاکوں کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اسلامی دہشت کا شبہ ہوتے ہی اوباما اور کیمرون کی طرف سے اوسلو کو سندیسہ آیا کہ اس مشکل وقت میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بعد میں جب معاملہ دوسرا نکل آیا اور پتہ چلا کہ یہ مشرق کی بدمعاشی ہے نہ مسلمانوں کی شرارت‘ بلکہ ایک خالص خانہ زاد‘ رائٹ ونگ عیسائی انتہا پسند کی کارستانی ہے‘ تو اپنے ابتدائی ردعمل پر اظہار تاسف کے بجائے چپ سادھ لی تھی۔سویڈن میں قیام کے دوران راقم کو بھی اس قسم کی مثبت سوچ رکھنے والے کئی لوگ ملے۔ مقامی یونیورسٹی کے چند اساتذہ اور طلباء کے ساتھ ایک مکالمہ کے دوران میں نے جب یہ کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں آپ کے خیالات اتنے اجلے ہیں تو پھر تو کوئی مسئلہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ جس پر شعبہ انتھرو پالوجی کے ایک طالب علم نے بڑی فکر انگیز بات کی۔ کہنے لگا کہ معاملہ کی نوعیت دوسری ہے۔ ”مذہب کے حوالے سے ہمیں مسلمانوں سے کوئی گلہ نہیں بلکہ کسی سے بھی نہیں اصل مسئلہ تارکین وطن کا ہے جنہوں نے ہمارے ملک میں متوازی سوسائٹی تشکیل دے رکھی ہے۔ وہ الگ تھلگ رہتے ہیں۔ اپنی زبان بولتے ہیں‘ اپنے لوگوں سے ملتے ہیں‘ مقامیوں سے ان کا میل جول نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں وہ مقامی سماج کا حصہ کیونکر بن سکتے ہیں؟ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے اندر جذب ہوں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہمارے کس کام کے؟ ہم جانتے ہیں کہ تہذیبوں کا ادغام آسان نہیں ہوتا مگر کوشش تو ہو‘ اگر وہ اس کے لئے بھی تیار نہیں تو بہتر ہے ان سے معذرت کرلی جائے“۔
مسلمانوں کی خبروں میں رہنے کی بات چلی‘ تو دلیل آئی کہ ”ان کی تعداد بھی تو دیکھیں۔ فی الوقت 45 ملین مسلمان یورپ میں بس رہے ہیں اور براعظم کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت میں موجودہ شرح اضافہ کو سامنے رکھیں تو بیس برس بعد60 ملین مسلمان یورپ میں رہ رہے ہوں گے۔ اتنی بڑی آبادی کے مسائل بھی ہوں گے اور شکایات بھی۔ جو جائز بھی ہوسکتی ہیں اور ناجائز بھی۔ مشرق اور مغرب کا بُعد اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اس پر دھیان نہیں دیا جاتا اور بعض سماجی امور کو خواہ مخواہ مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ موصوف اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولے کہ فرانس میں اگر نقاب پہننے پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ ان کی سماجی اور قانونی مجبوری ہے‘ جسے کسی طور مذہب سے جوڑنا مناسب نہ ہوگا۔ یہی حال سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کے حوالہ سے ہے۔ سیدھی سی بات ہے آپ جہاں رہتے ہیں‘ وہاں کے قوانین کا احترام تو کرنا ہوگا“۔
تازہ ترین