• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گاڑی چلانے والا ہر شخص ایک تجربے سے ضرور گزرتا ہے۔ کسی اشارے پر ٹریفک رُکی ہوئی ہواور کوئی پولیس والا نظر نہ آرہا ہو تو ایک گاڑی سب سے پہلے اشارہ توڑتی ہے۔ جب وہ بخیر و خوبی گزر جاتی ہے تو یکا یک کئی دوسرے بھی اس کے تعاقب میں لپکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب ناجائز فائدہ اٹھا تا ہے تو باقی سب اچانک اپنے آپ کو پاگل محسوس کرنے لگتے ہیں، جو خواہ مخواہ قانون کی پیروی کر کے اس فائدے سے محروم ہوگئے۔ یہ تمام لوگ جو ایک سرپھرے کی پیروی میں قانون توڑ کر نکلے ہیں، بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ اب یہ ہر اشارے پر دیکھیں گے کہ پولیس ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو اشارہ توڑیں گے۔اپنی چالاکی اور تیزی کی وجہ سے اکثر تو یہ بچتے رہیں گے لیکن کسی نہ کسی دن دوسری طرف سے آنے والے کسی بے قصور سے جا ٹکرائیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون توڑنے والا اگر پکڑا نہ جائے تو اس کا نتیجہ خوفناک تباہی کی شکل میں نکلتاہے۔ دیوانوں کی طرح لوگ اس کی پیروی کر کے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجے میں آوے کا آوا بگڑنے لگتا ہے۔ حالات اس قدر خراب ہوتے ہیں کہ ہر طرف تباہی مچ جاتی ہے۔ سڑکوں پہ لوگ مرنے لگتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ ریاست اٹھ کھڑی ہوتی ہے کہ بالاخر اس کے سوا اور کوئی چارہ اس کے پاس ہوتا ہی نہیں۔ گو آوے کا آوا بگڑ چکا ہوتاہے لیکن ریاست ایک ہولناک طاقت کی مالک ہوتی ہے۔ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ ناجائز فائدے اٹھانے والے بالآخر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔

اس سب سے بچا جا سکتا تھا، شروع میں اگر قانون توڑنے والے دو تین بڑے آدمیوں کو سزا دے دی جائے۔ قانون کا رعب ،جسے ’ریاست کی رٹ ‘کہا جاتاہے، قائم ہوتو قانون شکنی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔اگر توڑے بھی تو قانون کے حرکت میں آنے سے پہلے شہری ہی اس کا گھیرائو کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں یہی تو ہو رہا ہے۔ قانون کی پابندی کا ایک ماحول بنا ہوا ہے۔ قطار توڑ کر برگر لینے والے وزیر کے خلاف اتنا احتجاج ہوتاہے کہ اسے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔

پاکستان میں ہم نے دیکھا کہ سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان پر دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا۔ بظاہر انہوں نے مذہب کی آڑ لے رکھی تھی۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے لوگوں کو کنفیوژ بھی بہت کیا لیکن بالآخر ریاست کھڑی ہوئی اور انہیں کچل کے رکھ دیا۔ یہی کراچی میں ہوا۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک لفظ بولنا محال تھا۔ پھر کہاں گئے وہ سب؟ جنرل بلال اکبر نے گنتی کے چند اہلکاروں کو نائن زیرو پر چھاپہ مارنے کا حکم دیا۔ باقی تاریخ ہے۔ آخر قانون نے نافذ ہونا ہوتا ہے۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا تھا : ظلم کے خلاف جتنی دیر سے کھڑے ہوگے، اتنی زیادہ تکلیف سے گزرنا پڑے گا۔

مری بانسرہ گلی میں قانون شکنوں اور قانون نافذ کروانے والوں کے درمیان ایک خوفناک جنگ جاری ہے، جسے ایک سال سے طویل عرصہ گزر چکا۔ ایک سات منزلہ پلازہ وہاں بڑی شان و شوکت سے کھڑا ہےحالانکہ تین منزلوں سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ اگر بطور سرکاری افسر، میری ناک تلے قانون بڑے دھڑلے سے توڑا جارہا ہے تو اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو سرکاری افسر کرپٹ ہے یا مکمل طور پر سستی کا مارا ہوا۔ اسسٹنٹ کمشنر مری سمیت افسر شاہی کے لئے یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے کہ سات منزلہ پلازہ بنا کیسے اور اگر بن گیا تو آج تک قائم کیوں ہے ؟ ان سب کو البتہ یہ معلوم نہیں تھا کہ ساتھ والے مکان میں فرزانہ اعجاز صاحبہ قیام پذیر ہیں، جو قانون پہ عمل درآمد کروانے پر تل جائیں گی۔ نتیجہ یہ ہے کہ بادلِ نخواستہ کچھ نہ کچھ اقدامات افسر شاہی کو کرنا ہی پڑے۔

سادہ سا سوال یہ ہے کہ بائی لاز،اسٹے آرڈراوروزیرِ اعظم سٹیزن پورٹل کی ہدایات نظر انداز کیوں کر کر دی گئیں؟ منڈی بہاؤ الدین سے پی ٹی آئی کے ایم این اے حاجی امتیازکا مبینہ فرنٹ مین شہزاد احمد غیر قانونی تعمیرات کا ذمہ دار ہے۔سابق اے سی زاہد حسین کی تعریف نہ کرنا بددیانتی ہوگی، 3ستمبر 2020ء کو جنہوں نے 3منزلوں سے اوپر کا ڈھانچہ مسمار کروا یا۔ مالکان نے تعمیر جاری رکھی ،جس پر زاہد حسین نے پلازہ سیل کرکے شہزاد احمد کیخلاف ایف آئی آر درج کروادی۔

اخبارات میں رپورٹس شائع ہو چکی ہیں۔ کالمز لکھے جا رہے ہیں۔ سیاسی اثر ورسوخ والوں کے ہاتھ بھی لمبے ہوتے ہیں۔زاہد حسین کو مری سے ہٹادیا گیا اور تعمیر دھڑلے سے جاری رہی۔اب اس کی 6منزلیں مکمل ہیں اور7ویں منزل کے لئے سریے ڈاللے جاچکے۔مارچ 2021کو موجودہ اے سی نے چارج سنبھالا۔اب صورتحال یہ ہے کہ جس پلازے کی تعمیر راولپنڈی کے دو سابق کمشنر،دو سابق ڈپٹی کمشنر،دو سابق اے سی مری غیر قانونی قرار دے چکے، وہ اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ یہ بائی لاز کے خلاف ہے۔ اس کے خلاف اسٹے آرڈر موجود ہے۔اس کی تعمیر کو روکنے کا حکم وزیر اعظم پورٹل سے جاری ہوچکا ہے۔ یہ عمارت اردگرد موجود مکانات کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ لینڈ سلائیڈنگ والا علاقہ ہے۔ 7منزلہ پلازہ کسی بھی وقت گرکر تباہی کا باعث بن سکتاہے۔ ماہرین کی رپورٹس آچکی ہیں کہ مری کی پہاڑیاں اپنی جگہ سے چھ انچ سالانہ سرک رہی ہیں۔ان کی مٹی نرم اور بھربھری ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں، شہریوں اور سماجی کارکنوں سے گزارش یہ ہے کہ قانون شکنوں کے سامنے ہرگز ہتھیار نہ ڈالیں۔ شروع میں ایک ہی شخص اشارہ توڑتا ہے۔ پھر قطار لگ جاتی ہے۔ آخر حادثہ ہو کر رہتا ہے۔ آئیں ،اسے قانون نافذ کرنے کا ایک ٹیسٹ کیس بنائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین