• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشد مبین احمد

ایک بڑا معروف شعر ہے؎’’ ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں …باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں ‘‘تو واقعی باپ، اولاد کے لیے شجرِسایہ دار کی مانند ہے، جو نہ صرف اولاد کو زمانے کی تیز جھلسا دینے والی دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ فراہم کرتا ہے، بلکہ کڑی محنت و مشقت کے ثمر سے ان کی پرورش بھی کرتا ہے۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ پاک کی سورۃ الاحقاف کی آیت نمبر 15میں ارشاد فرمایا،’’اور ہم نے اِنسان کو اپنے والدین کےساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا حکم واضح ہے ، تاکید ہے کہ اولاد، والدین کی اطاعت اور فرماں برداری کرے اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئے، لہٰذا جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت ضروری ہے، وہاں والدین کی اطاعت بھی لازم ہے،جس میں کوتاہی کی کوئی گنجایش نہیں ۔ اسلامی تعلیمات پر غور کے نتیجے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماں باپ دونوں ہی کی ذمّے داریوں میں ایک توازن ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے بیچ قائم کیا ہے۔ 

وہ اس طرح کہ جو ذمّے داریاں ماں پوری نہیں کر سکتی ،اُنہیں باپ کے حوالے کردیا گیا اور جو ذمّے داریاں باپ نہیں نبھا سکتا، وہ ماں کے سپرد کردی گئیں۔ دونوں ایک ہی ترازو کے دو پلڑےہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اللہ تعالی نے خاص طور پر والدین کے بڑھاپےکاذکر فر ما کرکے ارشاد فر ما یا،’’ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئیں، تو ان کو ”اُف “بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر با ت کر نا ۔‘‘کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ والدین کم زور ،بے بس اور لاچار ہوتے چلے جاتے ہیں، جب کہ اولاد پرورش پاکر جوان ہوجاتی ہے۔تو اللہ تعالیٰ کے یہاں سُرخ رُو وہی ہوتا ہے، جو بوڑھے والدین کے فرائض کی ادائی کا خیال رکھتا ہے۔

دُنیا میں ایک واحد رشتہ والدین ہی کا ہے، جو بہت بے لوث، بےغرض ہوتا ہے۔ وہ والدین ہی ہوتے ہیں ،جو اولاد کی خاطر ہر تکلیف، دُکھ اور مشقّت اُٹھا کر بھی ہمہ وقت اُنھیں راحت و سُکون مہیا کرنے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شُکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے، وہیں والدین کی شُکر گزاری کا بھی حکم دیا ہے۔ سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’میرا شُکر ادا کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو، اور تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آناہے‘‘۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، رزق و عُمر میں اضافے کا سبب ہے۔ 

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا،’ ’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عُمر دراز کر دے اور رزق میں اضافہ فرمائے، تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔‘‘(شعب الایمان)۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے’’ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟

اُس شخص نے کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپﷺ نے فرمایا، ان کے آگے مت چلنا، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، انہیں بُرا بھلا مت کہنا۔‘‘اِسی طرح حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا،’’جس نے اپنے والدین کو راضی کر لیا، اُس نے یقیناً اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا اور جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا، اُس نے یقیناً اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا۔‘‘ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے،’’انسان جتنے بھی گناہ کرتا ہے، اُن میں سے اللہ تعالیٰ جس کی سزا کو چاہے، قیامت تک مؤخر فرما دیتا ہے، لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا مؤخر نہیں فرماتا، بلکہ والدین کے نافرمان کو اللہ تعالیٰ دُنیا ہی میں سزا سے دوچار فرماتا ہے۔‘‘ 

والدین کی یہ فضیلت اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی بھاری ذمّے داری عائد کی ہے اور اس سلسلے میں وہ اللہ کے دربار میں جواب دہی کے بھی پابند ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عُمرؓسے روایت ہےکہ’’مَیں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا،”تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر کوئی اپنی رعیّت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ 

چنانچہ لوگوں کا امیر، اُن کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مَرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔اس طرح تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔“

میاں اور بیوی زندگی کی عمارت کے دو اہم ستون ہیں۔ ازدواجی زندگی کے لیے دونوں کو دینِ اسلام نے الگ الگ احکامات و ہدایات دی ہیں۔ شوہر سے کہا گیا کہ تمہاری یک گو نہ فضیلت کے باوجود ان کے حقوق کے معاملے میں تم اسی طرح جواب دہ ہو، جس طرح کہ وہ تمہارے معاملے میں جواب دہ ہیں۔جو مَرد اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھے ہیں، انہیں معاشرے کا اچھا فرد قراردیا گیا۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا،’’ تم میں بہتر شخص وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور مَیں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘یہ تمام باتیں اخلاقی اقدار اور حُسنِ معاشرت سے متعلق ہیں کہ درحقیقت اخلاقی اقدار ہی معاشرے کا اصل حُسن، اُس کی روح ہیں اور والدین معاشرتی اکائی میں بُلند ترین مقام رکھتے ہیں۔ اس کے بعد درجہ بہ درجہ دیگر افراد کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم ہے۔ بہرحال، ہم بنیادی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی معاشرے کی تعمیر و ترقّی، سنوار و نکھار کے خواب کو تعبیر دے سکتے ہیں۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار

٭میری زندگی کا تجربہ، مبشرہ خالد، کراچی٭سوچ ،مشتاق احمد ، کوئٹہ٭یومِ آزادی،صفیہ نسیم٭ٹرانس جینڈر،فاطمہ، ملتان٭فلسفۂ قربانی، نصرت عباس داسو ٭آپ جو ہیں،تابندہ جبیں، کراچی ٭آم، رانا اعجاز حسین چوہان ٭ نیکی، شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکار پور٭امید،حسنین اشتیاق کمبوہ، اوکاڑہ٭بچّوں کے کپڑوں کےڈیزائنز، عفرا، کشمالہ ٭امتحانات، شاہدہ ذاکر،گلشنِ اقبال، کراچی٭پودینا، حکیمہ سیّدہ طاہرہ بخاری٭بزنس یا شوق، قراۃ العین فاروق،حیدرآباد۔

تازہ ترین