• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں بیٹھی ہوئی یوٹیوب پر ان تین پاکستانی معذور خواتین کے دنیا کے سفر کی داستان پڑھ رہی تھی کہ اچانک مجھے فوزیہ حسن اللہ کے رونے کی آواز آئی۔ وہ اکثر سائیکل چلانے کے بعد میرے پاس آجاتی تھی۔ فوزیہ، گزشتہ 25برسوں سے کچی آبادیوں کے بچوں کو پھول پودوں سے محبت اور اسلام آباد میں قدیمی درختوں کی حفاظت کی ذمہ داری اُٹھائے بہت خوش رہتی ہے مگر آج تو وہ روتی ہوئی آئی تھی ۔ باتوں باتوں میں وجہ پوچھی تو اس نے تصویر دکھائی نتھیا گلی میں سیکڑوں سال پرانے درخت کاٹے جارہے تھے کہ وہاں صاحبِ عالم کے دوست نے ایک بڑا ہوٹل بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ کٹے درختوں کو دیکھ کر پھر روپڑی، پوچھنے لگی، آپ نے لکھا تھا کہ جب منیزہ ہاشمی، فیض صاحب کے لگائے درخت کٹوا رہی تھی تو آپ روپڑی تھیں کہ آپ نے ان کو لگواتے دیکھا تھا۔ میں نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ویسے راوی کے کنارے جو درخت تھے، وہ بھی نیا شہر بسانے کے لئے کاٹ دیئے گئے، والٹن ایئرپورٹ کے 90درخت نئی آبادی کے لئے کاٹ دیئے گئے۔ ہر حکومت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں نجانے کتنے بدھا، گرو، ولی اللہ بیٹھے اور مسافروں نے تھکن اتاری ہوگی۔ برگد کا وہ درخت جس کے نیچے بیٹھ کر بدھا کو گیان ملا تھا۔ اس کی ایک شاخ کو دیوتا لے کر سری لنکا گئے تھے۔ وہاں پر اس درخت کی حفاظت کے لئے جنگلے بنائے گئے ہیں کہ لوگ شاخیں توڑ توڑ کر لے جارہے تھے۔ خیر یہ تو ان کے عقیدے کی بات ہے۔ ہمارے سیکڑوں سال پرانے درختوں نے ناصر کاظمی کوا پنی کہانیاں سنائی ہوں گی۔ والٹن کے درختوں نے انتظار حسین کو اپنی داستان بتائی ہو گی۔ اور نتھیا گلی والے درختوں نے توانگریزوں اور ان کے ساتھ ٹہلتی میموں کو، بچوں کو کھیلتے دیکھا ہوگا

میں نے فوزیہ کا موڈ بدلنے کے لئے کہا کیا کریں گی زہرہ آپا، شیماکرمانی، زرینہ سلامت، فرزانہ یاری، فاطمہ حسن کہ یہ خواتین تو ساری عمر ساڑھیاں پہنتی رہیں۔ میں نے بھی50برس تک ساڑھیاں پہنیں۔ اب ہدایت نامہ آیا ہے کہ خواتین کرتہ شلوار اور چادر لیں گی۔ وہ میری پھوپھی کیا کریں گی جو ساری عمر تنگ پاجامے پہنتی رہی ہیں۔ وہ خالہ امی کیا کریں گی جنہوں نے ہمیشہ غرارہ پہنا۔ میری ماسی شیداں، گائوں میں ساری عمر کالی دھوتی، سفید کرتہ اور سفید دوپٹہ اوڑھتی رہی۔ ضیا الحق نے بھی سرکاری لوگوں کو واسکٹ اور کرتہ شلوارپہنائے تھے۔ کام کرنے والی خواتین کو چادریں اوڑھنے کے احکامات دیئے تھے۔ اب پاکستان کو بنے 74سال ہوگئے۔ کتنی ہی نسلیں فیشن بدلتی رہی ہیں۔ مغلیہ غرارے، پشواز اور افغانی کرتے فیشن میں آئے۔ یہ کونسا وقت آپڑا کہ کہہ دیا گیا لڑکیاں جینز نہ پہنیں۔ ہمارے غریب اور متوسط طبقے کی لڑکیاں اور لڑکے لنڈے سے دو چار جینز اور دو چار قمیضیں لےلیتےہیں فیشن کا فیشن اور غربت بھی چھپ جاتی ہے۔

امریکیوں نے 1965میں کوکا کولا کے بہانے، چینیوں کے لباس بدلنے کے لئے، مغربی طرز کے کپڑے متعارف کرائے۔ وہ سب چینی مرد اور عورتیں جو سائیکل پر سفید کپڑے پہنے نظر آتے تھے۔ ایک دم رنگ برنگے اسکرٹ اور پینٹیں پہنے اور کوکا کولا پیتے نظر آئے، ان کا لیڈر وہی مائوزے تنگ رہا۔ اور بین الاقوامی مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔ البتہ ثقافتی تقاریب میں ہر ملک کے لوگوں نے اپنا روایتی لباس رکھا۔ جیسا کہ ہماری شادیوں میں بھی ہوتا ہے۔اور پھر یہ کونسا زمانہ ہے، لباس کے لئے خاص احکامات جاری کرنے کا۔ ایک طرف انڈیا غرارہا ہے۔ دوسری طرف ایران ہمارے ساتھ کلام کرنا پسند نہیں کرتا، تیسری طرف چودہ سو سال پہلے کے لباس اور عورتوں کے لئے خاص احکامات جاری کئے جارہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا کے ممالک ان کے قوانین کو تسلیم کریں۔ ہم ایک طرف کورونا سے لڑرہے ہیں۔ دوسری طرف پولیو ختم نہیں ہورہا۔ ہمارے ساڑھے تین کروڑ بچوں کے لئے اسکول ہی نہیں۔ مزدوری کرتے لاکھوں بچے اپنے گھر کے لئے روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ حکم دینے والوں کو سڑکوں پہ کھڑی بچیاں، ہاتھ پھیلائے بزرگ، کتابیں اٹھائے لڑکے لڑکیاں بھیک مانگتے نظر نہیں آتے۔ ہم چاہتے ہیں واقعی ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ ہر سڑک پر ہر عمر کے فقیر۔ اولاد کے ہاتھوں ٹھکرائے سڑکوں کے کنارے بیٹھے بزرگ مرد خواتین نظر نہیں آتیں کہ بیچ میں عورتوں کے لباس کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، اخباروں اور صحافیوں پر پابندیوں کے قانون بنانے لگتے ہیں ،بنے بنائے اداروں کو ختم کرنے، نئے منصوبوں کے ڈول ڈالنے لگتے ہیں۔ ہمیں کوئی فکر ہے تو بس سیاحت کی۔ مالم جبہ کی سڑک ہو ، دیر بالا کی سڑک کہ بلوچستان اور تھرپارکر کی سڑکیں اور پانی کی سپلائی۔ روز روز، چار دفعہ بجلی جانے کی مشکلات یہ اولین توجہ چاہتی ہیں کہ پاکستانیوں کا لباس کونسا ہونا چاہئے۔ ہم کوئی نئے نئے مسلمان، ہندو یا سکھ نہیں بنے ہیں۔ ہماری صدیوں پرانی روایتیں ہیں۔ ان روایتوں میں انگریزی اور دوسری زبانیں، کھانے، تقریبات شامل ہو گئی ہیں تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا۔ فضیلت علم کو ہے۔ ہر اسکول میں ہر طرح کی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں۔ کہاں گیا نیا نصاب!

تازہ ترین