• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے ایک بات سمجھاؤ۔ یہ کیا قصہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چالبازی، دھوکا، فریب اور عیاری کے دھندے ہو رہے ہوں، اُن میں آگے آگے تم ہی کیوں ہوتے ہو؟کہیں سادہ لوح لوگوں کو لوٹا جا رہا ہو، کہیں انہیں بے وقوف بنا کر اپنی جیبیں بھری جا رہی ہوں، کہیں چکنی چپڑی باتیں بنا کر فریب دےئے جا رہے ہوں، ہمیشہ ایک ہی خبر آتی ہے کہ یہ کام یا تو پاکستان میں ہورہا ہے یا سمندر پار ملکوں میں یہ ہاتھ کی صفائی پاکستانی حضرات دکھا رہے ہیں، موقع ملے تو ان میں خواتین بھی برابر کی شریک ہوتی ہیں۔
کیا مشرق، کیا مغرب ، کیا یورپ، کیا امریکہ، ان کے علاوہ کسی جگہ کا بھی قیاس کرلیجئے، کوئی صاحب آستانہ بنائے بیٹھے ہوں گے اور دم درود کے کمالات دکھاتے ہوئے ضرور مل جائیں گے۔ دم درود کا تو یہ عالم ہے کہ پچھلے دنوں برطانیہ کے ٹیلی وژن پر دیکھا، کچھ پاکستانی ملزم عدالت میں پیش ہو رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ جب جج کمرہٴ عدالت میں داخل ہوا اور ملزموں کے قریب سے گزرا تو ان حضرات نے خدا جانے کیا کیا پڑھ کہ جج پر پھونکنا شروع کردیا۔ انہیں یقین ہو گا کہ اس طرح جج کا دماغ گھوم جائے گا اور اس کی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑے گا کہ اسے کمسن لڑکیوں پر مجرمانہ حملہ کرنے والے درندے بالکل فرشتوں جیسے نظر آنے لگیں گے۔ خیر سے اہل وطن میں کتنے ہی ایسے ہیں جو کوئی مہذب کام کرنے کے اہل نہیں۔ پہاڑ جیسے بڑے شہر نیو یارک میں چند ایک کے سوا ساری پیلی ٹیکسیاں ہمارے ہم وطن چلاتے ہیں۔ یہی لوگ جب اپنے وطن جاتے ہیں تو وزیر سفیر بن جاتے ہیں۔ ٹیکسی ضرور چلائیں۔ دنیا کے اس علاقے میں کوئی بھی کام معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ یوں بھی رزقِ حلال ہو تو کیا برا ہے۔ مگر برطانیہ میں پاکستانیوں کا نام کوئی درجن بھر ٹیکسی ڈرائیوروں نے جس طرح ڈبویا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جی تو نہیں چاہتا کہ ان کے کالے کرتوت یہاں دہرائے جائیں لیکن جنہیں خبر نہ ہو ان کی اطلاع کے لئے ان لوگوں نے نو عمر لڑکیوں کو اپنی گاڑیوں میں لفٹ دے کر انہیں بے راہ روی پر لگایا، انہیں بے آبرو کیا اور یہی نہیں، ان سے جسم فروشی کرانے لگے کیونکہ گاہک انہیں آسانی سے مل رہے تھے۔ زیادہ تر لڑکیوں کا حشر برا ہوا۔ ایک تیرہ سال کی لڑکی ہمارے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھ لگی اور کم بخت نے اس بچّی کا پاؤں بھاری کر دیا۔ پولیس کو جوں ہی اس گروہ کی ان حرکتوں کی خبر ملی وہ خود بھی حرکت میں آگئی۔ ڈرائیور صاحب مُصر تھے کہ وہ بے قصور ہیں ۔ بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا تو ہو بہو ان صاحب کا ڈی این اے نکلا۔ ایسی وارداتوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بھی شدید دکھ ہوتا ہے اور ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو یہ سب کچھ کر گزرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان پر حرف نہیں آئے گا۔
برطانیہ کے بارے میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں ، دنیا کے دوسرے علاقوں کی مجھے خبر نہیں، پاکستانی لڑکوں نے بینکوں سے اور اے ٹی ایم کی کیش مشینوں سے دوسروں کی رقم نکلوانے میں وہ مہارت حاصل کی ہے کہ خدا کی پناہ۔ خود اپنی حماقت کی روداد بیان کرتے ہوئے حیا آتی ہے لیکن زیادہ عرصہ نہیں ہوا، میں سڑک کے کنارے لندن کی ایک اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوا رہا تھا۔ ایک پاکستان لڑکا قریب آکر کھڑا ہوگیا اور مشین پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ پیچھے ہٹا تو میں نے مشین میں اپنا کارڈ ڈالا۔ یوں لگا کہ مشین میرا کارڈ کھا گئی۔ وہ بولا کہ اندر بینک میں جاکر شکایت کرو۔میں اندر گیا۔ اس نے لمحہ بھر میں نہیں معلوم کس طرح میرا کارڈ نکال لیا۔ میں نے بینک والوں کے مشورے کے مطابق اپنے بینک کو فوراً ہی اطلا ع کردی کہ میر ا کارڈ مشین کے اندر رہ گیا ہے۔ انہوں نے اسی لمحہ وہ کارڈ منسوخ کر دیا۔ اب ہمارے بلا کے ذہین جوان کا کارنامہ دیکھئے۔ کارڈ منسوخ ہونے کے باوجود اور یہ اطلاع دنیا بھر کے کمپیوٹروں کو چلی جانے کے باوجو د وہ لڑکا سات دن تک میرا کارڈ استعمال کرتا رہا، جی بھر کر شاپنگ کی اور اپنے دوستوں کو کھانا کھلایا۔ بینک والے اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔ شکر ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری قبول کرلی اور مجھے ساری رقم لوٹا دی۔ اب جو ایک تازہ ستم ہوا ہے اس نے تو ہمارا جینا محال کردیا ہے۔ ایک بار پھر پیسے کمانے کا نسخہ اہل پاکستان کے ہاتھ لگا ہے اور نہیں معلوم مجھ جیسے کتنے پاکستانیوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ عیار لوگ لوٹنے اور بے وقوف بنانے کے لئے پاکستانیوں ہی کو نشانہ بناتے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ ہر روز بلاناغہ دو اور تین بجے کے درمیان ایک ٹیلی فون آتا ہے۔ ’مسٹر عابدی۔ کیسے مزاج ہیں؟‘ میں کہتا ہوں کہ جی خدا کا شکر ہے۔اس پر مجھے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ والوں نے بتایا ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران آپ کا کوئی حادثہ ہوا تھا؟ہم آپ کو کئی ہزار پاؤنڈ معاوضہ دلوا سکتے ہیں۔ روز روز یہی قصہ سننے کے بعد آپ چیخئے، چلّائیے، سمجھائیے، گلا پھاڑئیے، اگلے روز، اگلے ہی دن وہی دو اور تین بجے کے درمیان پھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجے گی۔ ”مسڑ عابدی، کیسے مزاج ہیں“۔ یہ عمل چار پانچ مہینوں سے جاری ہے۔ اس سادہ لوح حکومت برطانیہ نے کہیں کوئی ایسا قانون بنا دیا ہے کہ اگر کوئی آپ کو ٹکر مارے تو وہ آپ کا سارا نقصان بھرے۔ بس ہمارے مہربانوں کے ہاتھ میں ایک نیا ہتھیار آگیا ہے۔ ایک بار ایک لڑکی کا فون آیا اور بولی کہ ناراض نہ ہوئیے گا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کا کوئی حادثہ نہیں ہوا لیکن میں پھر بھی آپ کو بھاری معاوضہ دلوا سکتی ہوں، بس جو ہم بتائیں وہ کرتے جائیے۔ خدا جانے کون ہے جس نے برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کے نام پتوں اور ٹیلی فون نمبروں کی فہرستیں ترتیب دے رکھی ہیں اور وہ فہرستیں ان لوگوں کے ہاتھوں فروخت کر رہا ہے۔یہ لوگ اصل میں وہ لڑکے لڑکیاں ہیں جنہیں کوئی دوسرا کام نہیں ملتا اور تھوڑے سے معاوضے کے بدلے دن بھر عام لوگوں کی جھڑکیاں کھاتے رہتے ہیں۔
یہ داستان بہت دور تک جاتی ہے۔ ابھی اسپین میں ہمارے ہم وطنوں کا ایسا ہی گروہ پکڑا گیا جو ہسپانوی لڑکیوں سے غیر قانونی تارکین وطن کی فرضی شادی کراتے تھے اور حکومت کو دھوکا دے کر انہیں ملک میں آباد ہونے کا حق دلا رہے تھے۔ حال ہی میں امریکہ میں ایک اور پاکستانی گروہ پکڑا گیا۔ ان لوگوں نے دس بارہ شہروں میں فرنچائز لے کر دکانیں کھول لی تھیں جن میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت کے نام پر قانونی بنانے کی کارروائی کر رہے تھے۔ سارے کے سارے پکڑے گئے اور ایک بار پھر وطن کے نام پر سیاہ دھبّہ لگا۔وطن کے اندر کیا ہورہا ہے، اس کی بات تو جانے ہی دیجئے۔ شہر شہر ڈبل شاہ نام کے حضرات نا سمجھ لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں، کالے جادو کا توڑ کرنے والے دونوں ہاتھوں سے دولت بٹور رہے ہیں، عرب ملکوں کو جانے والے مسافروں کی بے ڈھنگی چال دیکھتے ہی حکام جان لیتے ہیں کہ انہوں نے پیٹ میں منشیات کے کیپسول چھپا رکھے ہیں، ایک عرب ملک میں نماز جمعہ کے بعد باقاعدگی سے سر قلم کئے جارہے ہیں لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں۔ یہ ساری خبریں اخباروں میں چھپیں، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر آئیں اور یہ سوچ کر دل کڑھتا رہاکہ یہ خبریں عام لوگوں کے ذہن میں اچھی طرح بیٹھ چکی ہوں گی۔
مگر وہ ایک خبر جس کی خاطر اخباروں کو کھنگالتا رہا، کسی حال نہیں آئی۔بڑی راہ دیکھی، بہت انتظار کیا۔نہیں آئی۔ پھر ایک روز یہ ہوا کہ وہ خبر آہی گئی۔ تفصیل میں جانا ضروری نہیں ۔ سرخی ہی کافی ہے۔ ملاحظہ
فرمایئے: برطانیہ میں بھارتی نژاد ڈاکٹر کو خواتین سے زیادتی اور فحش فلمیں بنانے پر بارہ سال قید۔
تھوڑا سا دل ٹھہرا۔ ذرا سا قرار آیا۔
تازہ ترین