• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے ”دیدار“ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے ٹھیک پچاس روزبعد ہوئے، اس روز سارے پاکستان سے کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کو پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں مدعو کیا گیاتھا اور یہ ”میلہ صحافیاں“ انرجی پر بریفنگ کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ یہ سب لوگ سرکاری ٹکٹ پر اپنے شہروں سے اسلام آباد پہنچے تھے اور سرکاری خرچ پر ہوٹلوں میں ٹھہرے تھے، مجھے ڈر ہے کہ کسی روز ان شرفاء کا نام بھی ”سیکرٹ فنڈ“ سے بہرہ ور ہونے والوں کی فہرست میں شائع نہ ہو جائے۔ ہو بھی جائے تو مجھے کیا، میں تو اپنی کار پر اسلام آباد پہنچا تھا اور محکمہ اطلاعات کے خرچ پر ہوٹل میں ٹھہرا ہی نہیں تھا۔ یہ سطور میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر لکھی ہیں کہ متذکرہ بریفنگ میں شامل صحافیوں کی نیک نامی پر حرف نہ آئے اور میرے مخاطب وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید ہیں۔ جنہیں صحافیوں کا عزت اور احترام بے حد عزیز ہے، چنانچہ امید ہے کہ وہ اس امر پر خاص نظر رکھیں گے کہ قومی مفاد کی اس بریفنگ کے اخراجات کسی خفیہ فنڈ کے کھاتے میں نہ ڈال دیئے جائیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا،میں نے اور تقریب میں شامل اکثریت نے میاں نوازشریف کو ایک طویل عرصے بعد ”لائیو“ دیکھا۔ یہی معاملہ چیف منسٹر پنجاب میاں شہباز شریف کا بھی تھا۔ دراصل موجودہ حکومت کو سر منڈاتے ہی اولوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، سب سے بڑا ”اولا“ لوڈشیڈنگ ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران اس ضمن میں کوئی کام نہیں ہوا اور اگر ہوا تو ان اداروں کی مزید بربادی کی صورت میں ہوا جو قوم کو بجلی فراہم کرنے کے ذمہ دار تھے۔ سو موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی اس مسئلے پہ کم و بیش درجنوں اجلاس منعقد ہوچکے ہیں جن کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوٹ چھاپے بغیر CIRCULAR DEBT (گردشی قرضہ) آئی پی پیز کو ادا کردیا گیا جو پانچ سو ارب سے زیادہ تھا۔ اس کا بڑا کریڈٹ اسحاق ڈار کو جاتا ہے، اسی طرح بجلی کی جو پیداوار گذشتہ جولائی میں تھی، اس میں موجودہ جولائی تک قابل قدر اضافہ کردیا گیا، تاہم یہ مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہیں کہ چٹکی بجانے میں حل ہو جائے گا۔ اس روز بھی وزیراعظم پاکستان گذشتہ نو گھنٹے سے مسلسل لوڈشیڈنگ اور اس نوع کے دوسرے بڑے مسائل کے حل کے حوالے سے مصروف رہے تھے۔ شہباز شریف تو خیر مسلسل کام کے حوالے سے پہلے ہی کافی ”بدنام“ ہیں۔ بہرحال مجھ ایسے نان ٹیکنیکل بندے کو مسئلے کی پیچیدگیاں، درپیش مسائل اور اس ضمن میں کی گئی پیش رفت کے بارے میں بتانے کے لئے ڈاکٹر مصدق کو پریذنٹیشن کی زحمت دی گئی تھی۔ انہوں نے ایک استاد کی طرح اتنی تکنیکی باتیں اتنے آسان لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیچر لگے جو طویل عرصے تک کسی پرائمری سکول میں پڑھاتا رہا ہو۔ اس کے بعد سوال جواب ہوئے، مجھے خدشہ تھا کہ میاں صاحب کسی سوال کے جواب میں کوئی ایسی بڑھک نہ لگادیں کہ چھ مہینے سال بعد لوڈشیڈنگ کا نام و نشان نہیں رہے گا مگر انہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہی کہا کہ لوڈشیڈنگ بتدریج کم ہو تی جائے گی اور انشاء اللہ پانچ سال کے دوران ہم اس پر کافی حد تک قابو پالیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محفل میں موجود صحافیوں کو تو کسی نہ کسی حد تک اس مسئلے کے حل میں درپیش مشکلات کا اندازہ ہوگیا ہوگا، مگر آپ عوام الناس تک یہ سب باتیں کس طرح پہنچائیں گے؟ جو کام نگار اور اینکر اپنی شخصیت کو حکومت کے کسی بھی اچھے کام کی تعریف یا اس کام میں درپیش مشکلات کا ذکر کے کے اپنی ”پاک صاف“ شخصیت کو ”داغدار“ نہیں کرنا چاہتے سو وہ تو وہی کرتے رہیں گے جو انہیں کرنا چاہئے لیکن اگر کچھ لوگ عوام کو حقیقت حال بتانا بھی چاہیں گے تو وہ ڈاکٹر مصدق بننا بہرحال پسند نہیں کریں گے کہ یہ کام بنیادی طور پر سرکار کا ہے اور یوں یہ اسی کو کرنا چاہئے چنانچہ حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اخباروں میں اشتہارات دینے کی بجائے یہ مہم ڈینگی کے انداز میں چلاتے ہوئے تعلیمی اداروں اور دوسرے فورمز پر عوام کو صورت حال سے باخبر رکھیں۔ نیز میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ تعلقات کی اس بہتری سے وہ آپ کے ”ماؤتھ پیس“ نہیں بن جائیں گے۔ لیکن جب وہ لکھنے بیٹھیں گے یا کچھ کہنے لگیں گے تو آپ کو ان کے لب و لہجہ کا فرق ضرور محسوس ہوگا۔ تعلقات عامہ بھی ایک سائنس ہے اور اس سلسلے کے سب سے بڑے ”سائنس دان“ جنرل ضیاء الحق تھے۔ میں نے ناروے اور تھائی لینڈ کی سفارت کے دوران اس طرح کے کچھ ”ٹوٹکے“ استعمال کئے تھے جو خاصے کامیاب رہے تھے۔
اب میرے پاس ایک سابق فوجی کا خط ہے جن کا نام گروپ کیپٹن (ر) رب نواز چوہدری ہے اس خط کا میں صرف ایک ”ٹوٹا“ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے، اس خط کا متذکرہ بریفنگ سے کوئی تعلقات نہیں، مگر میاں نوازشریف سے بہرحال ہے اور ان سطور کی اشاعت کا مقصد میاں صاحب کو یہ بتانا ہے کہ لوگ انہیں کیا سمجھتے ہیں اور یوں انہیں ان کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑے گاخط کا ایک
اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
جناب عطاء الحق قاسمی صاحب
السلام و علیکم! میں PAF کا ریٹائرڈ آدمی ہوں، آپ کے کالم کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے، آپ سے عمر میں بڑا ہوں اس لئے انتظا ر کے پہلو کو آپ سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ (یہ میرا خیال ہے) کیا پتہ آپ ہم سے بھی بڑھکر انتظار کے زخمی ہوں۔
کالم نویسوں میں آپ کو F-16 سمجھتا ہوں۔ موجودہ زمانے میں F-16 بہت Lethal(تباہ کن) ہتھیار ہے۔ یہ (Fighter Bomber) بھی ہے۔ لانگ رینج Striker بھی اور Air Display میں سب سے Attractive بھی۔ آپ کے کالم بھی بڑے معنی خیز ہوتے ہیں۔ آپ حکمرانوں اور میرے جیسے آدمی کے دلوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔
یعنی حکمرانی کرتے ہیں۔ اور اگرلڑنے پر آجائیں تو بڑے”کبھے“ بھی (اگر یہ صحیح پنجابی لکھی ہے) مجھے پڑھنے میں زیادہ شوق نہیں سوائے آپ جیسے لکھاریوں کو البتہ لکھنے کا شوق ضرور ہے، لیکن میرے خیال میں جو آدمی پڑھتا نہیں ہے وہ اچھا لکھ نہیں سکتا، بہرحال جب بھی دل پر چوٹ لگتی ہے تو دل کرتا ہے دوسروں کو بھی دکھاؤں۔ چونکہ میرا کوئی ذریعہ نہیں تو عموماً فیل ہو جاتا ہوں لیکن یہ سمجھ کر کہ ”شوق دا وی کوئی مل نہیں“ شوق پورا کرلیتا ہوں، عراق میں کوئی ڈھائی سال (Deputation) پر رہا ہوں، پاکستان کے بعد اگر کوئی ملک پسند ہے تو وہ عراق اور عراقی لوگ، جب وہاں حملہ ہوا تو دل کو ایک چوٹ سی لگی، جو عراق سے باہر نکل کر ایک بڑا سا زخم بن گیا، اسامہ بن لادن ایک اور بڑا حادثہ تھا۔ فوجی ہونے کے ناطے فوج بہت پسند ہے اور بعض فوجی جرنیلوں کے کام جو آپ لوگ پسند نہیں کرتے، ہم تو آپ لوگوں کے اچھے کام دل سے لگا لیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے آپ لوگ ہمارے اچھے کام بھی گناہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ نوازشریف صاحب نے موٹر وے بنائی میں جب بھی اس پر سفر کرتا ہوں سب سے پہلے ان کو دعائیں دیتا ہوں، میری سمجھ میں وہ بہت بڑا وزیر عظیم ہے، بھٹو وغیرہ اس کے قد کاٹھ کے برابر نہیں (میرے مطابق) یہ میں پاکستان کے مفاد کے تناظر میں کہہ رہا ہوں، آ پ کی پسند ایک طرف، مجھے وہ شخص پاکستان لگتا ہے“
خط کا اقتباس ختم ہوا، اب ”نواز پاکستان ہے“ کا پس منظر بھی سن لیں، جب فرانس ایک کالونیل پاور تھا دانشور سارتر اس کی توسیع پسندی کے رویے پر تابڑ توڑ حملے کررہا تھا، صدر ڈیگال کو مشورہ دیا گیاکہ سارتر غدار ہے، اس کو پھانسی دی جائے، ڈیگال نے کہا ”سارتر
فرانس ہے، میں فرانس کو پھانسی کیسے دے سکتا ہوں۔ تو قارئین کرام ہمارے ہاں سارتر اور ڈیگال کا متبادل کوئی بھی نہیں… اپنے قاری کا قول میں نے یہاں صرف اس لئے درج کیا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے لئے پاکستانی عوام کی محبت اور ان کے احترام کا اندازہ لگاتے ہوئے خود کو ایسے سانچے میں ڈھال لیں کہ پاکستانی عوام کو ان کی صورت میں وہ پاکستان نظر آنا شروع ہوجائے جس کا خواب اقبال  نے دیکھا تھا۔
تازہ ترین