• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی منظر نامے پر ایک ایسی دھند چھائی نظر آرہی ہے جس کے پار نظر آنے والے دھندلے خاکوں کی اپنے اپنے انداز سے تعبیر و تشریح کی جارہی ہے اور حالات کے تیوروں پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد جو انکشافات ہوئے ان سے دنیا کے بہت سے ملکوں میں سیاسی زلزلے کی کیفیت محسوس کی گئی۔ وطن عزیز بھی بڑی حد تک اس ہلچل کی زد میں آیا مگر اس کیفیت میں سب سے نمایاں اور روشن پہلو اس امید کا ہے کہ جب دھند چھٹے گی تو کرپشن کے خاتمے کے لئے بیدار ہونے والے طاقتور جذبے، دہشت گردی و انتہا پسندی سے نجات کے لئے دی گئی بے بہا قربانیوں اور احتساب جیسے جمہوریت کے کلیدی پہلوئوں کے بروئے کار آنے کے نتیجے میں مملکت خداداد مستحکم تر ہوکر ابھرے گی۔ اس اعتبار سے سیاسی بحران، قومی سلامتی کے چیلنج اور معاشی مسائل حل کرنے کے لئے سرگرم پاکستانی قوم کے لئے جہاں وزیراعظم اور آرمی چیف کی منگل 10مئی کو ہونے والی خبر اہمیت کی حامل ہے وہاں جمعہ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کے خطاب کے لئے کرائی گئی حکومتی یقین دہانی بھی خاص معانی رکھتی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے حوالے سے کاروباری ہفتے کے دوسرے روز کی کارکردگی بھی مثبت ہونے کی اطلاع کا بھی ایک واضح مفہوم ہے۔ تینوں خبروں سے اس امید کی روشنی پھوٹتی محسوس ہورہی ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی کے چیلنج ہوں یا سیاسی و معاشی معاملات، اگرچہ نشیب و فراز ہر معاملے میں ہوتے ہیں مگر پاکستانی قوم اپنے تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات اس بار قدرے تاخیر سے ہوئی ہے۔ سول ملٹری اپیکس کمیٹی کا آخری اجلاس 4اپریل کو ہوا تھا جس میں پنجاب میں انسداد دہشت گردی کا آپریشن فوجی قیادت میں بروئے کار لانے کے سوال پر تعطل زیرغور آیا تھا۔ حکومت کو ابتدا میں صوبہ پنجاب میں فوج کی زیر قیادت آپریشن کی اجازت دینے میں تذبذب تھا مگر ایسٹر کے موقع پر لاہور پارک میں بم دھماکوں کے بعد جب آرمی نے کارروائی شروع کی تو صوبائی حکومت کی سطح پر کوآرڈی نیشن کا ایک میکنزم تشکیل پا گیا۔ یہ صورتحال پاناما پیپرز کے ذریعے وزیراعظم کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیوں کا معاملہ سامنے آنےکے بعد پیدا ہوئی تھی جس میں مختلف حلقو ں نے بعض بیانات اور اقدامات کو من پسند مفہوم دے کر قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اب وزیراعظم اور آرمی چیف کی ون آن ون ملاقات اور بعد ازاں وزیراعظم کی سرکردگی میں قومی سلامتی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کو ایک خوش آئند پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ ملک کو درپیش سنگین چیلنجوں کے درمیان فوجی و سول قیادت کے درمیان رابطوں کی اطلاعات عوام کے اطمینان اور تسلی کا سبب بنتی ہیں۔ یہی کیفیت قومی اسمبلی میں حکومت کی اس یقین دہانی کی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، جو بدھ کے روز انرجی کے منصوبوں کے افتتاح کے لئے تاجکستان گئے ہیں، جمعہ کے روز ایوان میں آکر اپوزیشن کے سوالات کے جواب دیں گے۔ قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ سے ان کے چیمبر میں اطلاعات اور دفاع کے وفاقی وزرا کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ کے ہمراہ ملاقات سے بھی امید پیدا ہوئی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پاناما لیکس سے متعلق انکوائری کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس پر اختلافات دور ہوجائیں گے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں نظر آنے والی تیزی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے سے بھی ایک امید افزا صورتحال سامنے آئی ہے۔ مذکورہ تینوں خبروں پر پیش رفتوں کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بے بنیاد قیاس آرائیوں کی دھند پھیلانے سے اجتناب برتا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان ’’سب کے احتساب‘‘ کی روایت کو آگے بڑھانے کے لئے انکوائری کمیشن کا جلد اعلان کریں اور جمہوری پاکستان کی ترقی و استحکام کا سفر آگے بڑھے۔
تازہ ترین