• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب ہمیں یہ علم کہ جھوٹ بولنے کی2 وجوہات ایک خوف اوردوسرالالچ ،محترم ہمیں یہ پتا کہ خوف اورلالچ کی کشتی میں کوئی تبھی سوارہوجب Need اور Greed کا فرق مٹ جائے اور قبلہ ہمیں یہ تجربہ ہو چکا کہ NeedاورGreedکا فرق مٹنے سے انسان کیسے جانوربن جائے ۔
کبھی NeedاورGreedکایہ حال تھاکہ ایک طرف جس دن حضوؐ ر رحلت فرماتے ہیں اُس سے اگلی رات دیاجلانے کیلئے حضرت عائشہؓ پڑوسن سے تیل ادھارلیتی ہیںجبکہ دوسری طرف اِسی گھر میں حضورؐ کی7بہترین اورقیمتی تلواریں لٹکی ملتی ہیں کبھی Need اور Greedکایہ حال تھا کہ قیصرو کسریٰ کو شکست دے چکے حضرت عمر ؓ کی خلافت کازمانہ،جمعے کاوقت اورلوگوں سے کھچاکھچ بھری مسجد ِنبویؐ، اس سے پہلے کہ امیرالمومنین کے انتظارمیں بیٹھے لوگوں کی چہ میگوئیاں اونچی آوازوں میں بدلتیں،اس وقت کے سب سے بڑے حکمراں حضرت عمر ؓ آئے اورسیدھے جا کر منبرپربیٹھ کربولے ’’سب سے معذرت کہ مجھے آنے میں دیرہوگئی مگر دیراس لئے ہوئی کہ میں نے جمعہ کیلئے اپنااکلوتاسوٹ دھویاتھااوراسے آج سوکھنے میں زیادہ وقت لگ گیا‘‘
خیریہ تولوگ ہی اورتھے، آج کے دور میں ان مثالوں پر پورا اترنا مشکل ہوتا جارہا ہے ،آپ سکندرِاعظم کولے لیں اپنی بادشاہت کے لئے 10لاکھ افرادقتل کرنے والے الیگزینڈر دی گریٹ کو بالآخر بسترِ مرگ پر جب آخری لمحوں میں NeedاورGreed کافرق محسوس ہوا توبے اختیار کہہ اُٹھا’’میراتابوت میرے طبیب اٹھائیں تاکہ سب کوپتاچلے کہ کوئی طبیب موت سے نہیں بچاسکتا ،میراتابوت جہاں جہاں سے گزرے وہاں وہاں ہیرے اور جواہرات پھینکے جائیں تاکہ سب کومعلوم ہو کہ انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آئے کہ جب دنیاوی دولت کی کوئی حیثیت نہ رہ جائے اورپھر میرے دونو ں ہاتھ تابوت سے باہرنکال دیئے جائیں تاکہ ہرکوئی یہ دیکھ لے کہ جاتے وقت سکندرِاعظم کے بھی ہاتھ خالی تھے‘‘ ایک ہنری فورڈ تھا ، اپنے وقتوں کا امیر ترین شخص، دنیاکی کونسی ایسی سڑک ہوگی کہ جہاں اس کی کمپنی فورڈکی گاڑی نہ چلی ہو،یہ بیمارہوااوربیمار بھی ایساکہ حلق سے لقمہ اُترنامشکل ،وہ دنیا کے بہترین اسپتال میںداخل ہوا،ٹیسٹ ہوئے ،رپورٹیں بنیں اورپھردنیا کے بہترین ڈاکٹروں نے مل کراس کا علاج شروع کیا ، مگرہرنسخہ اورہرحربہ یوں ناکام ہوا کہ تمام تر کوششوںکے باوجود ہنری فورڈ کے حلق سے پانی کے سوا کچھ نیچے نہ اترا،ابھی علاج جاری ہی تھا کہ ایک رات انتہائی مایوسی کے عالم میں اس نے خود کشی کر لی،یہاں بتانے والی بات یہ کہ ہنری کی لاش کے پاس اس کے اپنے ہاتھوں سے لکھا ایک خط ملا ، جس کا ایک جملہ یہ تھا کہ ’’ جب میری ساری دولت میرے حلق سے ایک لقمہ نیچے نہ اتار سکی تب مجھے پتاچلاکہ NeedاورGreedمیںکیافرق ہوتاہے ‘‘۔
چندسال پہلے سردیوں کی ایک رات میں اس وقت کے بڑے صاحب کے ساتھ ان کے بڑے گھرمیں بیٹھاکافی پی رہاتھاکہ اچانک ان کے سینے میں درداٹھااورپھردیکھتے ہی دیکھتے ان کاحلق خشک ،چہرہ سفیداورسرایک طرف ڈھلک گیااوراس سے پہلے کہ وہ کرسی سمیت گرجاتے میں نے آگے بڑھ کرایک ہاتھ سے ا ن کی کرسی کو تھاما اوردوسرے ہاتھ سے ان کے سامنے پڑی ان کی شاہی گھنٹی بجائی ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تک ان کا اسٹاف اور ڈاکٹرپہنچا تب تک میں بڑے صاحب کا سراپنے ہاتھوں میںلئے مسلسل دروداورآیت الکرسی پڑھتارہا،خیرہنگامی طبی امدادکے بعد جب ان کی طبیعت قدرے سنبھلی تو پھرانہیں خفیہ طورپراسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال لے جایاگیاجہاں 25تیس ٹیسٹ کروانے اوراوپرنیچے 5ٹیکے لگوانے کے بعداسپتال کے وی آئی پی روم میں لیٹے صاحب نے اچانک میراہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کربڑے جذباتی اندازمیںکہا ’’آج کے جھٹکے نے تو Need اورGreed کافرق سمجھادیا،یاراللہ نے آج مجھے نئی زندگی دی‘‘لیکن میں آج بھی یہ سوچوں تو یقین نہ آئے کہ اس رات بہتے آنسوئوں اوربھرائی آوازمیں عمر بھرکارِخیر کاعزم کرنے والے یہ صاحب کیسے بعد میں بھی اقتدار سے چمٹے رہے ،کیسے بعد میں بھی انہوں نے پیسوں کی خاطر ہر برا کام کیااور کیسے جاتے جاتے وہ یتیموں اور مسکینوں کا فنڈ بھی کھا گئے۔
مگر پھر سوچتا ہوںکہ بونوں میں گھرے اب خود بھی اچھے خاصے بونے ہو چکے اس صاحب کا کیا قصور، ہمیں تو 69سالوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ ملا کہ موقع ملنے پر جسے Needاور Greedکافرق یاد رہا ہو، پرانی کہانیاں اور Outdatedقصوں کو چھوڑیں 28جنوری اور 4مارچ 2009کی گفتگوہو یا15فروری2010اور 5مئی 2012کے خطابات ،تب اپنی Needاور Greedکے عین مطابق میاں نواز شریف کہاکرتے تھے ’’زرداری صاحب سوئس بینکوں میں پڑا پیسہ آپ کا نہیں ملک و قوم کا ہے ،زرداری صاحب قوم نے جب مجھے مینڈیٹ دیا تب میں سوئس بینکوں میں پڑے آپ کے ملین ڈالر زواپس لانے میں ایک لمحے کی دیربھی نہیں لگائوں گا ‘‘ مگر جب میاں صاحب کی Needیا Greedبدلی تو قومی مینڈیٹ ملنے سے لے کر اب تک انہوں نے سوئس بینکوں کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔ یہ بھی Needیا Greedہی تھی کہ بھاٹی گیٹ لاہورمیں جوشِ خطابت کے زور پر مائیک گراتے ہوئے میاں شہبازشریف نے للکارا ’’زرداری صاحب ہم ڈینگی مارسکتے ہیںتو آپ سے بھی نمٹ سکتے ہیں ‘‘، اورپھر چھوٹے میاں صاحب کے اس جملے نے تو مقبولیت کاہرریکارڈتوڑڈالا ’’ اگرمیں نے علی باباچالیس چوروں کو سڑکوں پرنہ گھسیٹاتو میرانام شہبازشریف نہیں ‘‘،لیکن جب ان کی Need یا Greed بدلی تونہ گھسیٹاگھسیٹی ہوئی اورنہ میاں صاحب نے نام بدلااورپھریہ بھیNeedیاGreed ہی تھی کہ چند سال پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں اسحاق ڈاراورنویدقمرکے ساتھ بیٹھے دانیال عزیزنے میاں برادران پرایسے چڑھائی کی کہ ہکا بکا اسحاق ڈارکو پہلے توکچھ سجھائی اورسمجھائی ہی نہ دیااورپھرجب ڈار صاحب نے کچھ کہنے کی کوشش کی تودانیال عزیزنے انہیں ایک لفظ ادا کرنے کا موقع تک نہ دیا ، اسی پروگرام میں دانیال عزیز ایک موقع پرڈارصاحب کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں’’گوکہ ڈارصاحب ماشاءاللہ ایسےAccountantکہ جنہیں نمبرزکے ہیرپھیرمیں کمال حاصل، مگرپھربھی ان کے پاس یقیناًمیری اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگاکہ فتح پورسیکری میں مغلیہ طرزکے بنے وزیراعظم ہائوس پرجتنے پیسے خرچ ہوئے اتنے پیسوں سے غریب عوام کیلئے کتنے اسکول اورکتنے اسپتال بن سکتے تھے ،ڈارصاحب تو یہ بھی نہیں بتا نہیں سکتے کہ ان کے قائدین نے پیلی ٹیکسی اسکیم میں بینکوں کے کتنے پیسے ڈبودیئے او ر 500سے 600روپے سالانہ ٹیکس دینے والے ڈارصاحب کے لیڈروں کے اگر صرف رائیونڈمحلات کے شاہی اخراجات کاہی حساب کتاب ہوجائے تو ہر چوری کابھانڈہ پھوٹ جائے‘‘لیکن پھرجب NeedیاGreed بدلی تووہی دانیال عزیزاب اسحاق ڈارسے بھی زیادہ میاں برادران کے وفادار۔ان کوبھی چھوڑیں ذراNeedاورGreedکی یہ روشن مثال ملاحظہ فرمائیں کہ والد وہ میمن جو اپنے آپ پر نثار ہوتے ہیں صدرپرویزمشرف کے وزیرجبکہ بیٹی صدر مشرف ہی کےزمانے میںاطلاعات ونشریات کے حوالے سے مشورہ دینے والی میاں نوازشریف کی ٹیم میںاوراوپر سے سربراہ بھی ایک بڑے محکمے کی۔مگر دوستو ہمارے ملک میں سب کچھ ممکن، یہی ملک کہ جہاں آکسفورڈیونیورسٹی میں خانساماں اورڈرائیورساتھ لے جانے اورزندگی میں کبھی ایک لباس دوسری مرتبہ نہ پہننے والے لیاقت علی خان جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنتے ہیں تو وہ یہ کہہ کراپنانواب پن چھوڑدیتے ہیںکہ ’’غریب ملک کے وزیراعظم کویہ سب زیب نہیں دیتا‘‘یہی نہیں پھٹی بنیان اورسوراخوں والی جرابیں پہنے جب خان صاحب قتل ہوتے ہیں توان کے بینک اکائونٹ میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ کفن دفن کاانتظام ہوسکے بلکہ الٹا وہ اپنے درزی حمیدکے مقروض ‘لیکن اب اسی ملک کے اٹھارہویں وزیراعظم نوا ز شریف کی بھی سن لیں ، یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے، میاں صاحب کو روہڑی بائی پاس پر سکھرملتان موٹر وے کا افتتاح کرنا ہوتا ہے ، مگر وزیر اعظم کے آنے سے 5 دن پہلے مقررہ جگہ پر ڈھائی سومزدورپہنچ کر جنگل کومنگل بنانے میں لگ جاتے ہیں ،پھر وزیراعظم کے آنے سے 2دن پہلے پانچ اضلاع کی پولیس آکرپورے علاقے کوگھیرے میں لے لیتی ہے ،اسی دوران جب ایک طرف دو ہزار افراد کیلئے پنڈال سج سنور رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف کراچی سے اسپیشل خیمہ آیا اورپھر اس خیمے کو ٹھنڈا ٹھار رکھنے کیلئے 10ہیوی ائیرکنڈیشنرز اور 10جنریٹر بھی آگئے ،اور پھرافتتاح والے دن جونہی
2ہزارافرادکیلئے انواع و اقسام کے کھانے پک چکے تب 45گاڑیوں کے حصارمیں میاں نوازشریف آئے اور دوگھنٹوں میں سب کچھ بھگتا کر چلتے بنے ،یہاں سنانے والی بات یہ کہ ان دوگھنٹوں کی تقریب پر خرچہ ہوا دو کروڑ،مطلب بھوکی ننگی قوم کوپاناما لیکس میں گھرے وزیراعظم کاایک منٹ پڑاایک لاکھ 65ہزار روپے میں،مگر دوستو جیسے پہلے کہا کہ یہاںسب کچھ ممکن، یہاں مارشل لائی ڈگڈیوں سے جمہوری تماشوں تک ،فوجی جرنیلوں سے عوامی ڈکٹیٹروں تک ،سیاستدانوں سے بیوروکریسی تک ،مذہب سے سیاست تک اورشکل مومناں سے کرتوت کافراں تک جیسے سب کی Needہی ان کیGreed ویسے ہی ۔
یہاں ترک خاتون اول کے ہارچرانے سے قومی مینڈیٹ چرانے تک ، 67کروڑ گھر میں چھپانے والے سیکرٍٍٍٍٍٍٍٍٍٹری خزانہ بلوچستان سے آف شور کمپنیوں میں 7ارب چھپانے والوں تک اورکراچی میں دُکھی روحی بانو کے پلاٹ پرقبضے سے اسلام آبادمیں معذور مریضہ سے زیادتی تک یہاںسب کی Greed ہی ان کی Need،گو کہ یہاںاب اپنے مطلب کے علاوہ نہ کوئی کسی سے کچھ کہتا ہے اور نہ کوئی کسی کی سنتا ہے، مگر پھر بھی دل یہی کہے کہ جان کی امان پا کر رینٹل پاور اسکینڈل سے پانامالیکس تک اپنے تمام Needy اور Greedyجھوٹ کے پیامبروںسے یہ ضرور کہوں کہ جناب ہمیں یہ علم کہ جھوٹ بولنے کی2 جوہات ایک خوف اور دوسرا لالچ، محترم ہمیں یہ پتا کہ خوف اورلالچ کی کشتی میں کوئی تبھی سوار ہو جب Need اورGreedکافرق مٹ جائے اور قبلہ ہمیں یہ تجربہ ہو چکا کہ Needاور Greed کا فرق مٹنے سے انسان کیسے جانور بن جائے۔
تازہ ترین