• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو بے اثر کس نے کیا۔‘ بہت پڑھا گیا۔ایک شکوہ بہت ہوا کہ میرے خیالات یکطرفہ تھے۔ ڈپٹی کمشنر اور بیورو کریٹ ۔ یہ عہدہ سنبھالتے ہی فرعون بن جاتے ہیں۔ رشوت دے کر یہ عہدہ حاصل کرتے ہیں۔ ایم این اے ایم پی اے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ میری گزارش یہ ہے گلہ بجا لیکن ڈپٹی کمشنروں یا دوسرے سرکاری افسروں کو اس نہج پر ڈالنے والے کون ہیں۔ طالع آزما حکمران۔ سیاسی ہوں کہ فوجی۔ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے وہ ایسے افسروں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ اپنے ضمیر کی آواز پر کام کرنے والوں کو سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی پناہ گاہوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک اور رجحان بھی علم میں آیا کہ اب سول سروس میں بھی زیادہ تر نوجوان بیورو کریٹس۔ فوجی افسروں۔ پولیس افسروں کے بیٹے بھتیجے بھانجے ہیں۔ جاگیردار ، سرمایہ دار بھی اپنا ایک بیٹا بیورو کریسی کے لئے وقف کررہے ہیں تاکہ پیداواری وسائل کے ساتھ انتظامیہ پر بھی گرفت مضبوط رہے۔ بہت سے ڈپٹی کمشنروں نے اس کالم کو اپنے دل کی آواز قرار دیا ہے۔ مقصد صرف اس عہدے کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور سسٹم کو بحال کرنا ہے۔

آج ایک اور اہم منصب کی طرف آپ کی اور ان منصب داروں کی توجہ مبذول کروانے کا ارادہ ہے۔ وہ ادارے جہاں ہمارا مستقبل پرورش پاتا ہے۔جہاں سے معاشرے کو قیادتیں ملتی ہیں۔ نئی ثقافت نیا تمدن تخلیق کیا جاتا ہے۔ جنہیں مادرِ علم کہا جاتا ہے۔ جن کی تعداد اب تین سو سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ تصور کیجئے اس شخص کا جو بڑی تعداد میں پی ایچ ڈی اور عام پروفیسرز کا سربراہ ہو۔ جس کو ہزاروں طالبان علم کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہو۔ کتنا طاقت ور ہوگا۔ ہم تو جب کالج میں تھے تو پرنسپل کو ایک بہت بلند مینار کی طرح تکتے تھے۔ جب یونیورسٹی میں ہوتے تھے تو وائس چانسلر کو روشنی کا ایک بہت ہی مقدس ٹاور خیال کرتے تھے۔ کتنی مقدس ہیں یہ عمارتیں۔ جہاں علم و دانش۔ تحقیق کی فصلیں لہلہاتی ہیں۔ ایجاد کی تخلیق ہوتی ہے۔ معیشت کی نمو سکھائی جاتی ہے۔ جہاں ملک بھر کی سرزمینوں پرتحقیق کی جاتی ہے۔

ہم جن ملکوں میں اپنے ذہین بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں وہاں ایک تہذیب۔ متانت۔ قانون پر عملدرآمد ۔ عمدگی۔ اعتبار۔ اور کار خیر کا رجحان یونیورسٹیوں نے ہی پیدا کیا ہے ۔وہ قرون وسطیٰ سے یورپ میں تحریک احیائے علوم کا مرکز ہیں۔ مسلم دنیا میں بھی جامعۃ القروئین 859ء میں مسجد سے ہی علوم کی اشاعت کررہی تھی۔ دینی مدارس کی اکثریت مسلم ملکوں کے سماج کے لئے ذمہ دار شہری فراہم کرتی تھی۔ ان مکاتب میں فلسفہ۔ حکمت۔ طب۔ جراحت۔ اخلاقیات سب کچھ پڑھایا جاتا تھا۔

میرے مخاطب آج ساڑھے تین سو سے زیادہ سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور ہزاروں کالجوں کے پرنسپل ہیں۔کاش وہ اپنی خودی پہچانیں۔ انہیں یہ فخر ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک عظیم منصب پر خدمت کا موقع دیا ہے۔ جو دوسرے لاکھوں شہریوں کے نصیب میں نہیں ہے۔ چاہے وہ ملک کا صدر ہو یا وزیر اعظم۔ آرمی چیف ہوں یا چیف جسٹس۔ ہزاروں لاکھوں جوانیاں آپ کے ہاتھوں میں تربیت پارہی ہیں۔ جنہیں بعد میں خالی سرکاری اسامیاں پُر کرنی ہیں۔ کاروباری اداروں میں مختلف فرائض انجام دینے ہیں۔ کاش انہیں یہ احساس ہو کہ اس عظیم مملکت کے آئندہ دس پندرہ سال کی صورت گری آپ کی زیر نگرانی ہورہی ہے۔ نصاب، امتحانات اپنی جگہ ہیں۔ ڈگریوں کا اپنا مقام ہے۔ ان سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ لاکھوں بیٹوں بیٹیوں کو آپ رہنے سہنے۔ بولنے۔ دوسروں سے معاملات کرنے کی اخلاقیات سکھارہے ہیں۔ معاشرے میں عمدگی۔ بہتری۔ معیار۔ نیکی کی ترغیب۔ منکرات سے انکار آپ بتارہے ہیں۔ امریکہ یورپ ملائشیا۔ چین۔ روس اور ہمارے پڑوس بھارت میں یونیورسٹیوں نے یہ کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی 50، 60اور 70 کی دہائیوں میں جب پرائیویٹ یونیورسٹیاں نہیں تھیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں بھی بہت کم تھیں۔ ان دنوں میں یونیورسٹیوں نے بڑے بڑے دانائے راز تیار کیے۔ مقامی ، علاقائی اور عالمی مسائل پر یونیورسٹیوں کے اساتذہ طلبہ و طالبات سماج کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے جلوس نکالتے تھے۔ اس زمانے کے مباحثوں اور تقریری مقابلوں میں حصّہ لینے والے طلبہ و طالبات نے بعد میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کی تادیر رہنمائی کی۔

اس وقت معاشرے میں جو بے یقینی ، تذبذب اور قیادت کا قحط ہے۔ ہر شعبے میں نا پختگی کا عالم دکھائی دیتا ہے۔ اہم موضوعات پر دلائل کی قلت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس خلا کو یونیورسٹیاں پُر کرسکتی ہیں۔ ہم ان مباحث میں الجھتے رہتے ہیں۔ فلاں ادارہ رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن یہ نہیں کرنے دے رہا ہے۔ یہ شکایتیں ہر ملک میںہوتی ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے گلے ہیں کہ وہ صرف منافع اور کاروبار پیش نظر رکھتی ہیں۔ سوشل سائنسز نہیں پڑھاتی ہیں۔ آپ جس طاقت ور منصب پر فائز ہیں۔ اس کا ادراک کرلیں۔ روشنی کے مینار کو روشنی پھیلانی اوربھٹکے ہوئوں کو راہ دکھانی چاہئے۔ ایسی کرنیں تخلیق کرنی چاہئیں جو خشکی تری میں اجالا کرسکیں۔ آپ کے ذہن میں تو صدیوں کا نور ہے۔ دل میں زمانوں کا سرور ہے۔ اور ایسے بلند مقام پر فائز ہیں کہ وہاں سے یہ نور اور سرور آپ آتے زمانوں کو منتقل کرسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا مقام اپنی جگہ۔ فوج۔ بیورو کریسی۔ اور علمائے دین کی طاقتیں اپنے طور پر۔ مگر یونیورسٹی اور کالج کی جو قوت نمو ہے۔ تربیت کے جو امکانات ہیں۔ وہ ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہیں۔

اوّل تو ہر وزیراعظم، صدر کو بھی چاہئے کہ وہ ایک اعلیٰ معیاری سماج کی تشکیل۔ مرکزی عہدوں کے لئے تربیت ثقافت کے فروغ کے لئے سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے وقتاً فوقتاً مشاورت کریں کیونکہ ان سے تبادلہ خیال میں برسوں کی ریاضت۔ مشاہدات تجربات۔ کتابوں کا نچوڑ ملے گا جو ارکان پارلیمنٹ سے بار بار کے مشوروں میں نہیں ملتا ہے۔ لیکن خود یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو اپنے طور پر بھی سوچنا چاہئے کہ ان بحرانی ادوار میں آپ کو پہل کرنی چاہئے کہ آپ مختلف عالمی۔ علاقائی۔ اور ملکی مسائل پر تحقیقی رپورٹیں عوام کے سامنے لائیں۔ ارباب اقتدار تک پہنچائیں۔ اپنی طاقت اور منصب کا ادراک کریں۔ یونیورسٹیاں ایسے روشن خیال شہری تیار کرتی ہیں جو ملک کی قیادت کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرتی ہیں ۔ انہیں مستقبل کے چیلنجوں کے لئے بھی تیار کرتی ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا تحقیقی عمل بھی جاری رکھتی ہیں جس سے معاشرہ اور ملک مستفید ہوتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے ولولے حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ ایسا کررہے ہیں؟

تازہ ترین