• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا خوبصورت کالم لکھا ہے میرے دوست منصور آفاق نے اس نے مجھے پنجاب کی گورنری جس طرح بخشی ہے اس پر مجھے حافظ شیرازی اور امیر تیمور کا مکالمہ یاد آ گیا ہے، حافظ شیرازی نے کہا تھا
اگر آں تر ک شیرازی بدست آرد دل ما را
بخال ہندو اش بخشم سمر قند و بخارا را
ترجمہ : اگر میرا ترک محبوب اپنا دل ہاتھ میں رکھ کر میرے سامنے آ جائے تو میں اس کے گانوں کے تل پر سے سمرقند و بخارا قربان کر دوں اس پر امیر تیمور نے جو بے حد ظالم ہونے کے باوجود اہل علم اور شعر اء وادبا کا بے حد قدردان تھا، حافظ شیرازی کو طلب کیا اور کہا ”میں نے سمرقند و بخارا فتح کرنے کے لئے ہزاروں جانیں قربان کیں اور تم اپنے محبوب کے گالوں کے ایک تل پر سے یہ سب کچھ اسے بخشنے جا رہے ہو “جس پر حافظ نے ہنستے ہوئے کہا ”یا امیر انہی فضول خرچیوں کی وجہ سے تو بدحالی کا شکار ہوا ہوں!“
سو منصور آفاق کی علمی و ادبی فتوحات کے باوصف اس کی یہی فضول خرچیاں اس کی بھی بدحالی کا باعث ہیں ، منصور آفاق کی فضول خرچی صرف مجھے گورنر پنجاب بنانے کے مطالبے تک محدود نہیں بلکہ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے جس کے مطابق اس نے لکھا ہے کہ اس نے مسلم لیگ (ن) کے بارے میں آج تک کبھی کلمہ خیر نہیں کہا لیکن اگر اس کا مطالبہ مان لیا جائے تو وہ مستقبل میں کلمہ خیر کہنے کے لئے تیار ہے ۔
دی موذن نے اذان وصل کی شب پچھلے پہر
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
تو مسئلہ یہ ہے کہ منصور نے بھی تو ”اذان“ اس وقت دی ہے جب برادرم چودھری سرور کی گورنری اور اس کے وصل کے درمیان صرف ”اذان“ کا دورانیہ ہی رہ گیا ہے تاہم اس میں قصور تھوڑا سا میرا بھی ہے ، میں نے ا گر گورنری کی خواہش دل میں پالی ہوتی تو یار عزیز کو ایک ماہ پہلے ”بزن “کا اشارہ کرتا بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں تھی جب الیکشن کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے مجھ سے پوچھا کہ اس دفعہ کس ملک میں سفارت کا ارادہ ہے ؟ اور تین روز پہلے جب وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے مجھ سے سنیٹر بننے کی بات کی تو میں نے ان دونوں رہنماؤں کو کہا ”چھڈو جی جے بنانا جے تک گورنر پنجاب بناؤ “ مگر میں نے نہ صرف دونوں کا شکریہ ادا کرکے بات ختم کر دی بلکہ ان دونوں بھائیوں نے تو مجھے چودھری سرور کے گورنر پنجاب بننے کے فیصلے کی افادیت کا بھی قائل کر لیا۔ میں اس وقت برادرم منصور آفاق سے ایک فرمائش کرتے کرتے رہ گیا ہوں اور وہ فرمائش ان سے اس موضوع پر کالم لکھوانے کی تھی کہ عطا کے شایان شان اگر کوئی منصب ہے تو وہ صدر پاکستان کا ہے مگر افسوس، صدر پاکستان کے لئے مسلم لیگ نے ممنون حسین کا نام تجویز کر رکھا ہے جس سے بہتر کوئی چوائس ممکن ہی نہیں ۔ رفیق تارڑ کے بعد مسلم لیگ کا یہ دوسرا فیصلہ ہے جس پر پارٹی میں اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر ہے ۔میرا مسلم لیگ کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، صرف اس پارٹی اور اس کی قیادت کو پاکستان کے لئے ایک بہترین چوائس سمجھتا ہوں تاہم میں بھی ممنون حسین صاحب کا ووٹ ہوں اور خوش قسمتی سے مجھے اپنا یہ حق استعمال کرنے کا موقع بھی ملا ہے ۔ سو برادر عزیز منصور آفاق بس پانچ سال مزید صبر کر لو ، رام بھلی کرے گا ! مجھے لگتا ہے آج کا کالم مجھے برطانیہ میں مقیم دوستوں ہی کے حوالے سے لکھنا پڑے گا منصور بھی برطانیہ میں مقیم ہے اور میری محبوب شخصیت رضا علی عابدی بھی ایک طویل عرصے سے برطانیہ ہی میں ہیں ان کا کالم بھی آج کے جنگ میں شائع ہوا ہے جس میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے فراڈ کی داستانیں بیان کی گئی ہیں انہوں نے ان پاکستانیوں کے فرا ڈ کے جو طریقے بیان کئے ہیں اس پر وہ بے داد کے علاوہ داد کے مستحق بھی تھے کیا ذہین لوگ ہیں، آنکھوں سے سرمہ چرا کر لے جاتے ہیں۔ عابدی صاحب نے ایک لڑکی کا ذکر بھی کیا ہے جو روزانہ انہیں فون کرتی ہے اور اس کی نیت بھی فراڈ کی ہے مگر عابدی صاحب نے اب اس کا فون سننا ہی بند کر دیا ہے ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر اب کے اس کا فون آئے تو وہ سن لیں اور اسے کہیں کہ وہ آکر ان سے مل لے ، وہ اگر آتی ہے اور ”ترک شیرازی “ کی مانند ہے تو حافظ نے تو ایسے محبوب کے تل پر سے سمر قند و بخارا قربان کر دیا تھا ،عابدی صاحب ”حسب توفیق“ اگر کچھ قربان کرنا چاہیں تو کر دیں ورنہ پولیس کو اطلاع کر دیں دونوں صورتوں میں گھاٹے کا کوئی امکان نہیں ۔
البتہ اس کالم میں عابدی صاحب کی بات قدرے ادھوری رہ گئی ہے انہوں نے پاکستانیوں کے فراڈ کا تو ذکر کیا ہے گوروں کے فراڈ کا ذکر بھول گئے ہیں ان لوگوں نے تو آئفل ٹاور تک بیچ دیا تھا اس کے علاوہ برطانیہ میں جعلی یونیورسٹیوں کی جو بھر مار ہے جہاں غیر ملکیوں کو لوٹا جاتا ہے ان کا ذکر بھی رہ گیا ہے ۔ انشورنس کی رقم کے حصول کے لئے اپنی دکانوں کو جو آگ خود لگائی جاتی ہے اس میں گوروں سمیت تمام قوموں کے لو گ شامل ہیں ان کے علاوہ جو خطوط ”گوریوں“ کے نام سے (بمعہ تصاویر ) ہم پاکستانیوں کو وصول ہوتے ہیں اور جن کے ذریعے لمبے فراڈ کئے جاتے ہیں ،عابدی صاحب ایسے شریف النفس انسان کو غالباً ان کی بھی کوئی خبر نہیں۔ اور ہاں برطانیہ میں اگر کچھ پاکستانی فراڈیئے قسم کے ہیں تو وہاں صرف علی عابدی بھی تو رہتے ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے وہاں عبداللہ حسین اور مشتاق احمد یوسفی بھی رہا کرتے تھے وہاں ہمارے ساقی فاروقی بھی تو ہیں وہاں فلاحی کاموں میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے پیر نیاز الحسن اور لخت حسنین ایسی شخصیات بھی تو رہتی ہیں وہاں وہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور بھی مقیم ہے جس کی ٹیکسی میں کسی مسافر کا کروڑوں روپے کی مالیت کا سامان رہ گیا تھا اور وہ اسے ڈھونڈتا ڈھانڈتا بالاخر اس کے گھر پہنچ گیا تھا اور اس کی امانت اس کے سپرد کی تھی۔علاوہ ازیں عابدی بھائی لاکھوں پاکستانیوں میں کتنے پاکستانی فراڈ ہوں گے ؟ یہی ہزار دو ہزار ، باقی تو رزق حلال کھاتے ہیں خیر یہ سب باتیں تو یونہی درمیان میں آ گئیں اصل ”چکر“ تو وہی تھا جو شاعر نے بیان کیا ہے۔
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں ان سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال وجواب میں
تازہ ترین