• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارہ سالہ افغان جنگ کے خاتمے کیلئے شروع کئے جانے والے دوحہ مذاکراتی عمل کے دوبارہ شروع ہونے کے فوری طور پر کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں، جس کی وجہ سے خوف کی صورتحال میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس نے 2014ء کے بعد افغانستان میں استحکام کے حوالے سے شکوک میں اضافہ کیا ہے۔ اب تک تو امن عمل کا آغاز ہوجانا چاہئے تھا جس کی وساطت سے دسمبر 2014ء میں ہموار تبدیلی کو فیصلہ کن مدد ملتی، اُس وقت تو نیٹو کا جنگی مشن افغانستان میں ختم ہوجائے گا لیکن امن عمل کا آغازہونا ابھی باقی ہے۔ 18 جون سے قبل اور اس کے بعد ہونے والی سفارت کارانہ ناکامی کی پیشرفتوں کی خط حرکت کا علم سب کو ہے۔ دوحہ میں طالبان کے دفتر کھلوانے کا مقصد افغان امن عمل کو شروع کیا جانا تھا، اس کے بجائے یہ سفارتی لڑائی کو جلا بخشنے کا موجب بنا۔ صدر کرزئی نے طالبان کی جانب سے اسلامی امارات کے نشان والا پرچم لگانے کے باعث دوحہ امن عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور قطر پر مفاہمت کی خلاف ورزی اور امریکہ پر دوغلے پن کا الزام لگایا۔ انہوں نے باہمی سیکورٹی معاہدے (بی ایس اے) پر بھی واشنگٹن سے مذاکرات معطل کردیئے جو کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے بارے میں تھا۔ جس کے نتیجے میں واشنگٹن نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کو روک دیا جسے پہلے انہوں نے شروع کیا تھا اور طالبان نے اپنے قطری دفتر کو عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ سفارت کاری کی ناکامی کی وجہ غلط فہمیوں کو گردانہ گیا جو کہ قطر کی انتظام کاری کی نااہلی کی نظر ہوگیا اور جس سے کرزئی کو بھی اس عمل کو روکنے کا جواز ملا۔ گزشتہ دو سالوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر طالبان کے دفتر پر اعتراض کرنے کے بعد اس مرتبہ کرزئی نے اس حوالے سے پیشرفت کو روکنے کیلئے پرچم کا مسئلہ اٹھایا۔ عوام میں غصے اور بدلے کی سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کرزئی مسئلے کو حل کرنے میں کم اور امن عمل کو روکنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبان کو لگتا ہے کہ واشنگٹن نے ان کے دفتر کے حوالے سے پیشگی بیان جاری کر کے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔ دفتر کے افتتاح کے موقع پر ایک بیان پڑھ کر سنایا گیا تھا جس میں یہ حلفیہ کہا گیا تھا کہ افغانستان کی زمین دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ یہ اعلان کر کے اور یہ جان کر کہ دوحہ امن عمل پٹڑی سے اتر گیا تھا طالبان نے اسے ہتک آمیز سمجھ کر اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے میں پس و پیش اختیار کیا۔ اسی اثناء میں کابل اور واشنگٹن اور کابل اور اسلام آباد کے تعلقات خراب ہوگئے، کابل نے اشتعال انگیر بیانات داغنا شروع کردیئے جس میں امریکہ اور پاکستان پر طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے اور کرزئی کو تنہا کرنے کا الزام لگایا گیا۔ سب سے زیادہ اشتعال انگیز بیان پچھلے ہفتے افغان چیف آف اسٹاف کی جانب سے سامنے آیا جس میں انہوں دوحہ میں طالبان کے دفتر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان توڑنے کی سازش ہے، کابل میں امریکی سفیر نے جواباً اس الزام کو، جس کے مطابق ’امریکہ افغانستان کے ٹکڑے کر کے طالبان کو حصہ دینا چاہتا ہے‘ بے وقوفانہ گردانا۔
زیادہ اہم یہ ہے کہ واشنگٹن دوحہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے کرزئی کی مزاحمت کے قابل نظر نہیں آتا ہے، کرزئی کا اصرار ہے کہ مذاکرات صرف اس کی ہائی پیس کونسل(ایچ پی سی) اور طالبان کے مابین ہوں اور اس ضمن میں ان کی توقع ہے کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں۔ اگر دوحہ امن عمل تعطل کا شکار نہ ہوتا تو پہلے طالبان اور امریکیوں میں مذاکرات ہوتے اور بعد ازاں افغانوں کے مابین بھی بات چیت کا عمل تقویت پاتا۔ اسے جان بوجھ کر مبہم رہنے دیا گیا، اگرچہ ایچ پی سی کی نامزدگیوں کا اضافہ کر کے اسے وسعت بھی دی جاسکتی تھی۔اگر کرزئی وہ موقف اختیار نہ کرتے جو انہوں نے اختیار کیا تھا تو تصفیہ طلب مسائل ممکنہ طور پر حل ہو سکتے تھے۔دوحہ مذاکراتی عمل کے تعطل کے نتیجے میں ایک جانب تو طالبان رہنما شناخت سے عاری ہو گئے تو دوسری جانب مذاکرات کے خواہاں افراد کی صورتحال ان امن مخالف سخت گیر عناصر کے مقابلے میں کمزور ہوگئی جو کہ 2014ء کی آمد کے حوالے سے مذاکرات کی اہمیت کو کم گردانتے ہیں۔ دوحہ امن عمل کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات نے واشنگٹن کو اشتعال دلایا اور کرزئی کا بدخو موقف بھی اس کا موجب بنا جیسا کہ 25 جون کو صدر اوباما اور کرزئی کے مابین ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے کے دوران رپورٹ دی گئی تھی۔ اس عمل کی بابت امریکہ پر زور پڑا ہے کہ وہ کزرئی کے موقف کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے لیکن واشنگٹن نے بی ایس اے کے حصول کیلئے دوحہ کے سفارتی دارالحکومت کو وسعت دینے کے بجائے کابل کے ساتھ شراکت داری میں اضافہ کیا۔ سیکورٹی معاہدے کو ظاہری طور پر پُرامن بنانے کی کوششوں پر ترجیح نصیب ہوئی حالانکہ امریکی حکام نے اصرار کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی پیشکش اب بھی موجود ہے، جس کی بنیاد طالبان کے دفتر کھولنے کیلئے معاہدے کے مطابق ہے۔
بی ایس اے اوباما انتظامیہ کی اب فوری تشویش کا محور ہے جو کہ واشنگٹن اور کابل کے درمیان دباوٴ ڈالنے کی سیاسی چالوں سے عیاں ہے۔ نیویارک ٹائمز کی 8جولائی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے، جس کے مطابق اوباما ’زیرو آپشن‘ پر غور کررہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں کوئی بھی امریکی فوجی باقی نہ رکھا جائے۔ اس انتخاب کے زیر غور ہونے کی تصدیق وائٹ ہاوٴس کے ترجمان نے بھی کی ہے۔ سفیر جیمز ڈوبنز نے سینیٹ کی سماعت میں کہا تھا کہ ’ہماری افواج کی افغانستان میں موجودگی کے معاہدے کی عدم موجودگی کی صورت میں ہم وہاں نہیں رہیں گے‘۔ لیکن انہیں یقین نہیں کہ یہ کابل کے ساتھ مذاکرات کا متوقع نتیجہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں تیزی سے پیشرفت کی توقع نہیں رکھتے۔ سودے بازی کیلئے پھینکا گیا ’زیرو آپشن‘ کا پینترا کابل میں شکوک کا موجب بنا۔ حکومتی ترجمان نے اسے دباوٴ کی چال گردانا اور اس کے سنجیدہ امکان پر شک کا اظہار کیا۔ تاہم امریکی سفارتی توانائیوں کا مرکز نگاہ بی ایس اے مذاکرات کی بحالی کیلئے کرزئی کی رضامندی کا حصول رہا جو اب بھی تعطل کا شکار ہیں۔ کرزئی کی جانب سے بی ایس اے کیلئے دوحہ امن عمل پر معترض ہونے سے لگتا ہے پہلے سیکورٹی معاہدہ کرنا اور پھر بعدازاں طالبان کے مسئلے کو حل کرنا امریکہ کی حکمت عملی ہے۔
اس سے ایک اہم سوال کھڑا ہوتا ہے، کیسا ہو اگر کرزئی اس کی اہمیت میں کمی کرکے بی ایس اے کے مذاکرات کو سامنے لائے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوحہ مذاکراتی عمل کی بحالی کے امکانات معدوم ہوجائیں؟ ان دونوں مسائل کے ربط اور بی ایس اے کے حصول کیلئے کاربند کرزئی کے معاملے میں مدغم ہوکر کیا واشنگٹن خود کو سازش کا شکار ہونے کے خطرے میں تو نہیں ڈال رہا جو کہ امن مذاکرات کیلئے وقت اور گنجائش میں کمی کرسکتا ہے۔ان سوالوں کا جو بھی جواب ملتا ہے امن عمل کے جاری رکھنے میں کوئی بھی تاخیری غلطی مہنگی ثابت ہوگی۔ زیادہ تاخیر اس وقتی مفاہمت کو بھی تہ و بالا کردے گی جس نے طالبان کے دوحہ میں دفتر کے قیام کی راہ ہموار کی تھی اور یہ مستقبل میں مذاکرات کے امکان کو بھی تباہ کردے گی۔ جتنی قریب 2014ء کی ڈیڈلائن آئے گی، اگر طالبان امریکی اور نیٹو افواج کے ملک سے انخلاء کا انتظار کریں گے تو پھر،طالبان کے پاس سودے بازی کیلئے گنجائش کم رہ جائے گی۔
کچھ کے خیال میں رمضان کا مہینہ مختلف فریقین کیلئے اپنے متعلقہ موقف پر نظرثانی کیلئے وقت فراہم کرتا ہے لیکن رمضان میں سودمند وقفہ اہم موقع گنوانے کا سبب بن سکتا ہے،اگر امن کی کاوشیں شروع کردی جاتیں تو پھر رمضان کا مہینہ آغاز میں کچھ علاقوں میں جنگ بندی کیلئے استعمال ہوسکتا تھا۔ دونوں اطراف سے پرتشدد کارروائیوں کا رک جانا یا اس میں کمی امن مذاکرات میں تیزی لانے اور اس سلسلے میں اعتماد سازی میں معاون ثابت ہوتا۔ لیکن اس عرصے میں سنجیدہ سفارت کاری کی کمی کا مطلب ہے کہ افغان تنازعے کے دونوں فریقین کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں کا موسم عروج پر ہے، جو کہ قیام امن کیلئے بمشکل ہی ساز گار ہو۔ ایسے حالات میں امن عمل کا آغاز کرنے میں تاخیر کرنے کے اہم نتائج مرتب ہوں گے جس میں اپریل 2014ء میں افغان صدارتی انتخاب کا انعقاد ہے جو کہ بمشکل 9 ماہ کی دوری پر ہے۔ اگر کرزئی اس عمل کو اپنے فائدے کیلئے استعمال نہ کریں اور اگر اس عمل کو سیاسی مفاہمت سے جوڑا جائے تو پھر آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تین امتحانوں سے اچھی طرح نبردآزماء ہوا جاسکتاہے۔ ایسی تحریک کی عدم موجودگی میں انتخابات کے متنازع ہونے کا امکان ہے، اس سے پر امن انتقال اقتدار کے بجائے انتشار پھیلنے کا امکان ہے، 2014ء میں بیرونی افواج کے باحفاظت انخلاء کیلئے پُرامن انتقال اقتدار ضروری ہے۔ پائیدار امن مذاکرات میں تاخیر کا سب سے زیادہ سنگین نتیجہ2014ء کے بعد انتشاری صورتحال کا خطرہ ہے۔ جس سے پاکستان کے سیکورٹی کے حوالے سے خدشات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بہترین تناظر کے حصول کیلئے افغانوں میں سیاسی مصالحت کیلئے کام کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کو بدترین صورتحال کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ اسے افغانستان میں ایسے امن عمل کیلئے کوشاں رہنا چاہئے کہ جس کے ذریعے 2014ء سے قبل لڑائی کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن پاکستان کو افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی کسی بھی قسم کے ممکنہ انتشار کے نتائج سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک سیاسی اور سیکورٹی منصوبے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین