• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تو ببو بھائی عرف خالدملک کی ٹوکیو میں المناک وفات کی خبر نے ہی صدمے سے دوچار کردیا تھا پھر جب یہ پتہ چلا کہ ان کی میت کو غیر مسلم طریقے سے جلاد یا گیا ہے تو ایسی تکلیف ہوئی کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زائل ہوتی محسوس ہوئی، میری نظروں کے سامنے چند ماہ قبل ببو بھائی سے ایک عشائیے میں ہونے والی ملاقات کا منظر تھا، درمیانہ قد، گورا رنگ، خوبصورت خدوخال، متناسب جسم، چہرے پر مستقل مسکراہٹ، وہ اپنی دلچسپ باتوں سے مستقل محفل کی آنکھ کا تارا بنے تھے،میں انہیں دیکھ کر صرف یہی سوچ رہا تھا کہ پینسٹھ برس کی عمرمیں کوئی اتنا ہنس مکھ اور زندہ دل بھی ہوسکتا ہے، تقریب کے اختتام پر براہ راست بات چیت کا موقع ملا، پتہ چلا کہ ان کو جاپان میں سیٹل ہوئے40 سال ہوچکے ہیں،وہ جاپان میں گزارے گئے اپنے ابتدائی ایام کے حوالے سے بتارہے تھے کہ اسی کی دہائی میں جاپان میں رہائش اور حلال فوڈ اورجاپانی زبان سے لاعلم ہونے کے سبب ملازمت کا حصول کس قدرمشکل ہوا کرتا تھا، وہ اس وقت جاپانی خاتون سے شادی شدہ اور قانونی طور پر جاپان میں مقیم تھے لہٰذا اپنے پاکستانی بھائیوں کو ملازمت دلوانے، ان کی رہائش کا بندوبست کرنے اور ان کے دیگر مسائل کے حل کےلئے ہمیشہ کوشاں رہا کرتے، ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی لیکن پاکستانی کمیونٹی کو ہی وہ اپنی اولاد اور رشتہ دار کہا کرتے تھے، لیکن آج پاکستانی کمیونٹی جس کو وہ اپنی اولاد اور جاپان میں رشتہ دار کہا کرتے تھے ان کی ہی غفلت کے نتیجے میں ببو بھائی کو اسلامی طریقہ کار کے تحت دو گززمین نصیب نہیں ہوسکی، میں بطور جاپان میں مقیم ایک پاکستانی ہونے کے ناتے آپ سے بہت شرمندہ ہوں، جاپان میں مقیم پندرہ ہزار پاکستانی آپ کو یوں جلائے جانے پر بہت شرمندہ ہیں،آپ بلاشبہ ایک کروڑ کی اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کا حصہ تھے، ان کی وفات کے حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ ببو بھائی اگست کے آخری ہفتے میں کورونا کے سبب جب گھر میں طبیعت سنبھل نہ سکی تواسپتال میں داخل ہوئے، اس وقت ان کی اہلیہ صحت مند تھیں لیکن جیسے ہی وہ اسپتال میں داخل ہوئے ان کی اہلیہ کو برین ہیمرج ہوگیا اور وہ بھی اسپتال میں کومے میں تھیں، اسی دوران ببو بھائی انتقال کرگئے، اب اسپتال انتظامیہ کے پاس ان کے ورثا سے رابطے کے لئے کوئی نمبر نہ تھا، اسپتال انتظامیہ نے ان کے فون سے ان کی جاپانی غیر مسلم سالی کا نمبر لے کر رابطہ کیا جس نے ببو بھائی کے مذہب سے لاعلم ہونے کے سبب ان کی آخری رسومات جاپانی طریقہ کار سے ادا کرنے کی اجازت دے دی اور یوں ان کی میت کو جلادیا گیا، ان کے پاکستانی دوست جو کافی دنوں سے ان سے رابطے کی کوشش کررہے تھے جب ان کی سالی سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، ایک برادر اسلامی ملک اور ایک پڑوسی غیرمسلم ملک سے تعلق رکھنے والے شہر یوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے آغاز میں جب ایسی اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ کورونا کے مریض کو جاپانی طریقہ کار کے تحت جلادیا جائے گاتو برادر اسلامی ملک اور پڑوسی غیر مسلم ملک کے سفارتخانوں نے جاپانی وزارت خارجہ کو خط لکھ دیا تھا کہ ہمارے مسلم شہریوں کو اسلامی طریقہ کار کے تحت آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت فراہم کی جائے، تاہم ببو بھائی کو جلائے جانے کے ایک ہفتے بعد جب نیشنل میڈیانے اس خبر پر سفارتخانے سے رابطہ کیا تو ایک پریس ریلیز اور ایک تصویر جاری کی گئی جس میں بعض کمیونٹی ممبران کی سفارتخانے میں شاندار دعوت کا اہتمام کیا گیا تھاجبکہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے نے جاپانی حکام سے ببو بھائی کے المناک واقعے پر رابطہ کیا ہے لیکن انہوں نے کہا ہے کہ کسی بھی مریض کی وفات کی صورت میں میت اس کے ورثا کے حوالے کردی جاتی ہے وہ اپنےطریقہ کار کے تحت آخری رسومات ادا کرسکتے ہیں، تاہم میت کو اگر پاکستان بھجوانا ہوتو سفارتخانے سے کاغذات کے حصول کے لئے رابطہ کیا جاسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پڑوسی ممالک کے سفارتخانوں نے کورونا کی وبا کے آغاز میں اپنے اپنے شہریوں کی وفات کی صورت میں سفارتخانے کو آگاہ کرنے کے لئے جاپانی حکومت کو خط لکھا تھا اس طرح کا کوئی خط پاکستان کے سفارت خانےکی جانب سے نہیں لکھا گیا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا کیونکہ پوری دنیا کمیونٹی کے لئے پاکستانی سفارتخانوں کی کارکردگی سے آگاہ ہے، ببو بھائی میں معذرت خواہ ہوں!

تازہ ترین