• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدرِ مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ سے خطاب کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کا چوتھا پارلیمانی سال شروع ہو گیا ہے۔ اِس خطاب میں بھی صدرِ مملکت عارف علوی کو اپوزیشن کی جانب سے ’’غیر دوستانہ‘‘ طرزِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر مملکت نے لکھی ہوئی تقریر پڑھ کرسنا دی جس میں حکومت کی تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے گئے، اس میں عمران خان کی مدح سرائی کے سوا کچھ نہ تھا، صدرِ مملکت نے افغانستان سمیت دیگر معاملات میں پوری دنیا کو عمران خان کی ’’مریدی‘‘ کا مشورہ دیا ہے۔ یہ ریمارکس صدر مملکت کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ صدرِ مملکت نے حکومت کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لینے کی بجائے نہ صرف اس کی ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی کی تعریف و توصیف کے پہاڑ کھڑے کر دیے بلکہ اپوزیشن کو شور مچانے کی بجائے حقیقت تسلیم کرنے کی تلقین بھی کرتے رہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر اسپیکر نے پارلیمان کی پریس گیلری کو تالا لگا دیا جس کے بعد پارلیمنٹ ہائوس کے صدر دروازے پر پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے ارکان کو دھرنا دینا پڑا اسپیکر اگرحکومتی دبائو میں آکر پریس گیلری کی تالہ بندی نہ کرتے تو ممکن ہے پریس گیلری سے واک آئوٹ ہی ہوتا اور سرکاری اشتہارات کے حصول کے لئے سرگرداں ’’ڈمی اخبارات‘‘ کے چند کارندے پریس گیلری میں بیٹھ کر حکومت کو اپنے احسانات کے بوجھ تلے دبا لیتے لیکن جن قوتوں نے اسپیکر کو پریس گیلری بند کرنے کی’’ایڈوائس‘‘ دی انہوں نے دھرنا شو کو تقویت ہی دی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے پریس گیلری کی تالہ بندی سے لاعلمی کا اظہار کر دیا تھا جب کہ اسپیکر نے یہ کہہ کر کہ ’’پی آر او کے مشورے سے ہی پریس گیلری کو تالا لگایا گیا‘‘ جان چھڑا لی۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ بل، جسے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور سمیت دیگر صحافتی تنظیموں نے کالا قانون قرار دیا ہے، کیخلاف پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں کے دھرنے کو اپوزیشن رہنمائوں اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے اس حد تک زور دار بنا دیا ہے کہ حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ حکومت پی ایم ڈی اے کا مسودہ ہی پبلک کرنے سے انکاری ہو گئی ہے۔ سر ِدست صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کے دبائو کے بعد حکومت دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے لیکن تاحال وہ اِسے کالا قانون تسلیم نہ کر نے پر مصر ہے۔

دوسرا بڑا واقعہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر حکومت کے ’’حملہ آور‘‘ ہونے کا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے تو انتہا کر دی اور کہا کہ ’’الیکشن کمیشن نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں، ایسے اداروں کو آگ لگا دیں‘‘۔ چیف الیکشن کمشنر پر سنگین الزامات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کے حکام نے اجلاس سے واک آئوٹ کر دیا۔ رہی سہی کسر فواد چوہدری نے نکال دی، انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر ہے، چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کا ’مائوتھ پیس‘ بن گئے ہیں، ان کا نواز شریف سے قریبی رابطہ ہے‘‘۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا غیرمعمولی اجلاس منعقد ہو چکا ہے جس میں الیکشن کمیشن پر سنگین نوعیت کی الزام تراشی پر فواد حسین چوہدری اور اعظم سواتی کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کو مسترد کر چکا ہے لہٰذا موجودہ حکومت الیکشن کمیشن کو اِس کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس تحریکِ انصاف کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کیس بھی زیر سماعت ہے، اس لئے حکومت نے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ اس لڑائی کے انجام کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ اس لڑائی کے جمہوری نظام پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر ایک اچھی شہرت کے مالک بیورو کریٹ ہیں، ان کا سب سے بڑا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ آئینی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے وہ اقتدار کی چوکھٹ پر سربسجود ہونے کے لئے تیار نہیں۔

ملک بھر میں 41کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے بظاہرمجموعی طور 61نشستیں حاصل کر کے تمام جماعتوں پر سبقت حاصل کر لی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) 53نشستیں حاصل کر سکی لیکن پنجاب میں پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کو سب سے بڑی شکست راولپنڈی اور چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈز میں ہوئی۔ گزشتہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن نے تمام نشستیں جیت لی تھیں۔ ابتلا کے اس دور میں بھی نواز شریف کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا اور سندھ میں پی ٹی آئی نے قابلِ ذکر نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے قدم نہیں اکھڑے جبکہ کراچی میں بھی پی ٹی آئی قدم جما رہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی میں 5، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے3 ,3نشستیں حاصل کی ہیں۔ا ے این پی اور باپ کے حصے میں 2،2 نشستیں آئی ہیں۔ جماعت اسلامی کو راولپنڈی میں بھی 2نشستیں ملی ہیں۔ 51آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کرکے دو بڑی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دے دی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے 16نشستیں حاصل کی ہیں لیکن پورے ملک میں حکمرانی کے خواب دیکھنے والی جماعت عملاً سندھ کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے نتائج سے ووٹرز کے رحجان کی عکاسی ہوتی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات مستقبل قریب میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر یقیناً اثر انداز ہوں گے۔

تازہ ترین