• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جھگڑا یا جھڑپ یہ چل رہی ہے کہ ججز اور وکیلوں کو اضافی پلاٹ کیوں، کیسے اور کیونکر دیئے جائیں۔ کچھ مخالفت کر رہے ہیں کہ ان کو تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی اتنی ملتی ہیں جتنی کا ذکر مشیرِ مالیات نہیں کرسکتے ہیں کچھ میری طرح بدتمیز اور بدگمان ہوتے ہیں وہ افتخار چوہدری کے زمانے میں دی گئی مراعات کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ کچھ جو میری نسل کی طرح بوڑھے ہوگئے ہیں، وہ اس زمانے کو یاد کراتے ہیں جب غلام محمد بیراج بن رہا تھا اور زمینوں کی بندر بانٹ ہوئی تھی۔ وہ جو مجھ سے بھی زیادہ بوڑھے ہیں وہ یاد دلاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت کیسے محلوں، فیکٹریوں اور اثاثوں پر راتوں رات قابض ہوگئے تھے اور جو بیل گاڑیوں میں پوٹلیاں لئے پاکستان آرہے تھے۔ ان کے لئے انگریزوں کے چھوڑے ہوئے کوارٹر تھے، جن کی ملکیت کا قضیہ آج تک طے نہیں پایا۔

یہیں مجھے پولیس فائونڈیشن کی کہانی یاد آئی۔ یہ ادارہ کم تنخواہ دار ملازمین کو پنشن یا گھر کی ضرورت کے تحت کم پیسوں میں دیئے جانے کا تصور تھا۔ تصور اور علاقہ بھی برا نہ تھا۔ پلاٹوں کی قیمت بھی کم رکھی گئی تھی۔ زمانہ کسی کی حکومت کا ہو، کام تو افسروں نے کرنا ہوتا ہے۔ نیکی کو گھر سے شروع کرکے ہر بڑے پولیس افسر نے کم سے کم اپنی اولاد کے لئے پلاٹ حاصل کرلئے۔ اخبار میں تفصیل آگئی۔ چونکہ وہ سارے افسر یا تو ریٹائر ہوکر ملک سے باہر جاچکے ہیں یا فوت ہوچکے ہیں۔ اس لئے جیسے پرانے پاپیوں کے خلاف کچھ نہ ہوسکا۔ اس پر بھی صبر کی مہر لگا دی گئی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران قابل عزت اعزازیہ اب تو اپنے خاندان کے لئے بھی فری ایئر ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ یوں تو اسمبلی میں مخالفت کے تیر چل رہے ہوتے ہیں۔ مگر جب سوال مراعات کا آئے تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی ایسا صدر نہیں آیا جو انڈیا کے مسلمان صدر کی طرح، جب صدارت کی مدت ختم ہوئی اپنا ٹین کا بکسہ لے کر ایوانِ صدارت سے نکلا ہو۔ وہ بے چارے خواجہ ناظم الدین تھے یا شاید چوہدری فضل الٰہی۔ کل میرے گھر اخبار میں ایک تصویر تھی جس میں ہماری پرانی وفاقی محتسب ہلالِ امتیاز وصول کرتی دیکھی جاسکتی تھیں۔ معلوم نہیں اب کس ملک میں ہیں البتہ ایک درجن قالین ان کے سامان کے ساتھ جانے کی خبریں بھی اخباروں میں شائع ہوئی تھیں۔ ہنسی کیا رونا آتا ہے کہ آج کی محتسب تین بچوں کے گاڑی کے نیچے کچلے جانے کے بعد خاندانوں کو معاوضہ بھی دے چکی ہےاور کرسی پر براجمان ہے۔

بدل قتل کے واقعات تو اب بہت آسان ہوگئے ہیں۔ انیسہ کو جس لڑکے نے قتل کیا تھا۔ اس کو مقتولہ کے بھائیوں نے معاف کر دیا ہے۔ یہ آسانی سے چھوڑ دیے جانے کا سلسلہ ریمنڈ ڈیوس کے زمانے کے سودے سے مزید آسان بنایا گیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا نور کے والدین بھی اسی دیت کو قبول کر لیں گے۔ اب تو لگتا ہے جتنے بچے جنسی زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر مار دیئے گئے۔ ان کے غریب والدین کو تو بدل قتل کا علم بھی نہیں ہوگا۔

بدل قتل اپنی جگہ۔ میرے سامنے ان سارے نوجوانوں کی تصویریں ہیں جنہیں افغانستان میں کوڑے اس لئے مارے گئے کہ انہوں نے طالبان کے حق میں خبریں نہیں بھیجی تھیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کے اخباروں کے صفحہ اول پر خاکی برقع اوڑھے خواتین ہیں۔ تیسری طرف طالبان شور مچا رہے ہیں کہ ہماری حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کیا جارہا۔ عورت کی آزادی کی بات کو یہ کہہ کر گول کر جاتے ہیں کہ یہ شرعی مسئلہ ہے۔ گویا دنیا کے تمام اسلامی ممالک غیر شرعی کام کر رہے ہیں۔ طالبان خود کو مسلمان کہہ رہے ہیں، سچ ہے ہیں بھی مسلمان۔ مگر وہ اکلوتے مسلمان ملک تو نہیں۔ دنیا کی سیاست میں توازن رکھنا اور احترامِ آدمیت اولیت رکھتے ہیں۔ پچاس فیصد پڑھی لکھی خواتین کی قدر ہی نہ کی جائے، ان کی اہلیت کو قبول نہ کیا جائے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ کیا بیس سال میں دنیا کی سیاست اور ترقی کے مراحل کے بارے میں کبھی سنا، سوچا اور نہ دیکھا۔ یہ بھی غور نہیں کیا کہ سعودی عرب نے تمام ممالک کے لوگوں کو سیاحت کے لئے آنے کی اجازت اور حج میں محرم کا ساتھ غیر لازم کردیا ہے۔

مجھے افغان نوجوان لڑکیوں نے واٹس اپ کیا ہے کہ ہماری ثقافت، لباس اور تہذیب پانچ ہزار سال قدیم ہے۔ لمبے کرتے پہنی عورتیں ہمیشہ ہماری تہذیب کی آئینہ دار تھیں، ہیں مگر ہر قسم ہماری تہذیب میں شامل نہیں ہے۔ ہم نے بھی قرآن و حدیث کو پڑھا ہے۔رسول اکرمؐ کے پاس جو خواتین اپنے مسائل اور شکایت پیش کرنے آتی تھیں کیا وہ برقع میں آتی تھیں۔ دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔

اس وقت ساری دنیا توقع کررہی ہے کہ طالبان خواتین اور صحافیوں پر سے پابندیاں ہٹائیں لوگوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالیں۔ سنجیدگی سےسارے طبقات کو شامل کرکے حکومت بنائیں۔ دنیا میں اسلام اور طالبان کا نام رسوا نہ کریں۔ ابھی تو خبر ہے کہ مسلح عیش قبیلہ اس بدانتظامی کا فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ہمارے ملک کی طرح کی کہانیاں مت سنائیں کہ فلاں کے گھر سے ڈالر اور فلاں کے گھر سے سونے کی اینٹیں نکلی ہیں۔ یہ چسکا سیاست پاکستان میں کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکی۔ ملک کو عزت نہ دلاسکی۔ اب تو وزیروں کی زبانیں اتنی کھل گئی ہیں کہ اداروں کو آگ لگانے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ عبرت کی نشانیاں سارے سیاست دان بنے ہوئے ہیں۔ اگر اس کو سیاست کہتے ہیں تو پھر ہمیں ارسطو، افلاطون اور سقراط کو پہلے سیاست دانوں کو پڑھانا۔ پھر نصاب میں شامل کرنا پڑے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین