• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضور خضرو مسیحا سے مشورہ کر لو
حضور درد کا درماں سخت مشکل ہے
عدم وہ کیسا گریباں جو چاک چاک نہ ہو
علاجِ چاکِ گریباں سخت مشکل ہے
مجھے یوں لگتا ہے کہ عبدالحمید عدم نے بھی اپنی محبوبہ سے کوئی ایسے ہی وعدے کر لئے تھے جیسے شریف برادران نے 11/مئی سے پہلے بڑے بڑے عوامی جلسوں میں پاکستان کے غریب اور سادہ لوح لٹے پٹے عوام سے کر لئے ہیں۔ اگر آپ 11/مئی 2013ء سے پہلے کی تقریریں نکال کر دیکھیں جو کہ میرا الیکٹرانک میڈیا کو مشورہ ہے کہ روز کم از کم ایک تقریر کی جھلکیاں اپنے کسی سنجیدہ پروگرام میں نہ سہی کسی مزاحیہ (کامیڈی) پروگرام ہی میں دکھا دیں تو عوام کا حافظہ روزانہ تازہ ہوتا رہے گا اور حکمرانوں کو بھی شاید کچھ کچھ یاد آتا رہے۔ میں نے کامیڈی پروگرام کا مشورہ اس لئے دیا ہے کہ 11/مئی کے بعد وہ تقریریں سوائے ”کامیڈی“ کے اور کچھ بھی نہیں رہ گئیں۔ آپ انہیں دیکھ کر اور سن کر صرف ہنس ہی سکتے ہیں کیونکہ رو رو کر تو اب عوام کے آنسو خشک ہو گئے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ اب لوگ ہنسنا بھی ترک کر دیں اور بقول غالب
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کے مصداق ہنسنے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں۔ آپ یقین کریں مجھے اس غریب ملک کے غریب لوگوں پر بہت ترس آتا ہے اور حکمرانوں کی ہوشیاریوں پر رشک آتا ہے۔ کیسے باریاں باندھی ہوئی ہیں۔ کل تمہاری باری تھی۔ آج ہماری باری ہے۔ سرکاری افسران کی موج ہے۔ ایک سیٹ پانچ سال تک عوام کو نچوڑ نچاڑ کر چلا گیا۔ عوام کو قرضوں کے بوجھ تلے سسکتا چھوڑ گیا۔ اب دوسرا سیٹ Set بھاگ بھاگ کر اپنے اپنے عہدوں کا چارج لے رہا ہے اور آپ نے دیکھا ہو گا گنے کی مشین کا رس نکالنے والا۔ آخری دو پھیری گنے کو نیچے لیموں رکھ کر لگواتا ہے تاکہ اگر کوئی ایک قطرہ بھی رس کا بچا ہے تو اسے لیموں لگا کر نکال لیا جائے۔ عوام گنے کی مانند مشین سے گزر رہے ہیں اور اب نئی انتظامیہ لیموں رکھ کر ان کا رس نکالنے میں مصروف ہے۔ پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے لینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ پانچ سال بھی گزر جائیں گے۔ نئے افسران ترقی کی نئی منزلیں طے کریں گے۔ پرانے بیٹھ کر جگالی کریں گے بقول جاں نثار اختر
خود بخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے
کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے
تو کبھی راگ، کبھی رنگ، کبھی خوشبو ہے
کیسی کیسی تجھے عشوہ گری آوے ہے
اخبارات میں خبریں پڑھتے ہیں کہ پی آئی اے میں فلاں افسران کا تقرر ہو گیا اور فلاں جگہ فلاں شخص پہنچ گیا۔ جن کو ابھی من پسند پوسٹنگ نہیں ملی ان کی بھاگ دوڑ دیدنی ہے۔ اسلام آباد میں آج کل رمضان کے باوجود موقع پرستوں کا جم غفیر ہے اور سب کی نہیں تو بہتوں کی مرادیں پوری ہو رہی ہیں۔ پیر فقیر اور دعائیں تعویذ گنڈے کرنے والے مستند بزرگ آج کل کافی مصروف ہیں اور ان کے آستانوں پر بھی سرکاری افسران اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کا جم غفیر ہے۔ اگرچہ حالات اتنے سنگین نہیں لیکن حبیب جالب کی وہ غزل جو انہوں نے بھٹو صاحب کے جانے اور ضیاء الحق کے مارشل لاء آنے کے فوراً بعد کہی تھی اس کے کچھ اشعار یاد آ رہے ہیں۔ یہاں قارئین کی نظر کرتا ہوں
کہاں قاتل بدلتے ہیں
فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے
فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
خیر یہ سب اداس کرنے والی باتیں میں نے خواہ مخواہ لکھنی شروع کر دی ہیں۔ لگتا ہے کہ مجھے روزہ لگ رہا ہے۔ مجھے کالم افطار کے بعد لکھنا چاہئے تھا مگر کیا کریں افطار کے بعد تو ہمت اور ٹوٹ جاتی ہے۔ پندرہ گھنٹے کا روزہ لوڈشیڈنگ میں رکھ کر آدمی میں بچتا ہی کیا ہے۔ اس دفعہ پاکستانیوں کو روزوں کا دگنا ثواب ملنا چاہئے کیونکہ گرمی اور لوڈشیڈنگ کا روزہ ایمان کا سخت امتحان ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نیک اور معصوم عوام خدا کے فضل و کرم سے اس امتحان میں پورے اتر رہے ہیں اور تراویح بھی ادا کر رہے ہیں۔ متمول حضرات تو آخری عشرہ سعودی عرب میں گزارتے ہیں اور پھر سب کو چاند رات ہی کو واپس آنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ نے جاتے وقت واپسی کی جو سیٹ بک کروائی تھی وہ کمپیوٹر سے نکال دی جاتی ہے اور پھر بھاگ دوڑ کر کے روزے میں رسم دنیا ادا کر کے آپ کو نئی سیٹ ملتی ہے۔ جتنا وقت عبادت میں لگتا ہے تقریباً اتنا ہی وقت سیٹ کو دوبارہ بک کروانے میں لگتا ہے اور جس اسٹیشن منیجر کا ایک رمضان جدہ میں لگ جاتا ہے اس کا ڈیفنس میں گھر بن جاتا ہے۔ میں تین سال متواتر آخری عشرے میں مکہ اور مدینہ گیا اور آخری اس تکلیف کی وجہ سے اب ہزار خواہش کے باوجود رمضان میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے سے محروم ہو گیا ہوں کیونکہ سیٹ بک کروانے کے لئے جتنی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس سے عبادت میں بہت خلل ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب نئی حکومت میں حالات کیسے ہیں۔ میں تو اس وقت کا ذکر کر رہا ہوں جب پی آئی اے میں لوٹ مچی ہوئی تھی اور ہر کوئی عاقبت سنوارنے والوں کے خرچے پر اپنی دنیا سنوار رہا تھا۔ امید ہے کہ اس سال حکومت کی تبدیلی کے بعد شاید حالات درست ہوں اور پی آئی اے کا کمپیوٹر صحیح کام کرے۔ جب ہم جاتے تھے تو کمپیوٹر متواتر تین سال واپسی پر خراب ملتا تھا۔ آخر میں فیض صاحب کا حسب حال شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں
دل کو صَد لخت کیا سینے کو صَد پارہ کیا
اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے
تازہ ترین