• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی وترقی احسن اقبال نے اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں قوم کو یہ نوید دی ہے کہ بجلی کے بحران کا ”جن“ موجودہ دور حکومت میں بوتل میں بند کردیا جائے گا اور یہ بوتل سمندر میں پھینک دی جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کے عوام کو ایک بہت بڑے ”جن “سے نجات مل جائے گی، جو ان کے لئے عذاب بنا ہوا ہے مگر عوام کو اس بات کا بھی خوف ہے کہ سمندر اپنے اندر پھینکی جانے والی چیزوں کو واپس باہر بھی پھینک دیتا ہے۔
ویسے تو مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے بڑے بڑے جن قابو میں کئے ہیں اور انہیں بوتلوں میں بندکیا ہے ۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ بوتلیں سمندر میں پھینکی گئی ہیں یا ابھی تک کسی محفوظ جگہ پر ذخیرہ کی گئی ہیں لیکن لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو جن قابو میں کرنا آتے ہیں۔ اس کی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں، جو جن قابو کرنے کی دلچسپ اور حیرت انگیز داستانوں کی صورت میں موجود ہیں۔لیکن یہ جو بجلی کے بحران کا جن ہے ، اس کا تعلق جنات کے کسی اور قبیلے سے ہے۔ یہ جن بہت پیچیدہ خصلتوں کا مالک ہے۔اس کی حفاظت کرنے والے بہت سے جنات ہیں ،جو اس کی جگہ پہلے خود بوتل میں گھس جائیں گے۔ بجلی کے بحران کا یہ جن نہ ہوتا تو گردشی قرضوں کے نام پر قومی خزانے سے فوری طور پر 5 سو ارب روپے نکالنا کوئی آسان نہ ہوتا ۔ کسی کو اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ 5 سو ارب روپے کی یہ رقم کہاں چلی گئی اور گردشی قرضے بظاہر ختم ہونے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں کم نہیں ہوئی۔ یہ جن اگر نہ ہوتا تو نندی پور پاور پروجیکٹ کی لاگت 329ملین ڈالرز سے بڑھ کر 570 ملین ڈالرز نہ ہوجاتی۔ یہ سارے کمالات اسی جن کے ہیں ۔ ایسے جن اگر ہوں تو باقی جنات پر قابو پانا کوئی مشکل نہیں ہوتا ہے۔ ابھی تو اس جن سے اور بھی کام لئے جاسکتے ہیں۔یہ ایسا جن نہیں ہے کہ اسے بوتل میں بند کیا جائے اور اس کے قبیلے کے باقی جنات خاموش ہوکر بیٹھ جائیں۔ وہ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے بھی یہ بوتل ڈھونڈ کر لے آئیں گے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ غلط معاہدے کئے اور ان سے مہنگی بجلی خریدی۔ آج انہی آئی پی پیز کو منہ مانگے پیسے دیئے جارہے ہیں اور ان سے بجلی بھی نہیں مل رہی ہے ۔ اب بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں منشا اور مرضی کے بغیر لوگوں کو آگے لایا جارہا ہے ، جو شاید قوم کی خدمت کے لئے اس وقت کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے ۔ یہ بجلی کے بحران کے جن کا ہی کارنامہ ہے کہ اس نے ان لوگوں کو قوم کی خدمت کا موقع فراہم کیا اور ماضی میں دوسرے لوگوں کو اس کام سے روکے رکھا۔ یہ اسی جن کی طاقت ہے کہ سندھ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں گزشتہ 20سال سے کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ پانی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی فائلیں بھی اوپر نہ آسکیں۔ یہ اسی جن کی طاقت کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی گئی ۔ وزارت منصوبہ بندی وترقی بھی اس معاملے میں بے بس رہی ۔ اس قدر طاقتور اور خطرناک جن کو اگر قابو کرلیا جاتا ہے تو نہ صرف یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا بلکہ ان جنات کی بھی شکست ہوگی، جو اس جن کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر حکومت اس جن کو قابو کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پاکستان کے عوام کو اپنی انرجی پالیسی میں مکمل اعتماد میں لے اور انہیں یہ احساس دلائے کہ بجلی کا بحران ختم کرنے کا مقصد مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ عوام کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ پاکستان کا آئین18 ویں ترمیم کے بعد بجلی کے بحران کے جن کو قابو کرنے میں بہت حد تک مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل157 کے تحت یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہائیڈرو اور تھرمل پاورپروجیکٹس کی تنصیب میں صوبوں سے نہ صرف مکمل مشاورت کی جائے بلکہ انہیں بجلی کے نئے منصوبے لگانے کی بھی کھلی اجازت دی جائے۔
مذکورہ آرٹیکل کے تحت صوبوں کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بجلی کے استعمال پر ٹیکس عائدکریں اور اپنی صوبائی حدود میں بجلی کی تقسیم کے لئے ٹیرف کا تعین بھی کریں۔ صوبوں کا یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اپنے پاور ہاوٴسز اور گرڈاسٹیشن تعمیر کریں اور ٹرانسمیشن لائنز بچھائیں۔ اگر آئین کے اس آرٹیکل پر عمل کیا جائے تو ان جنات کی طاقت ختم ہوجائے گی، جو بجلی کے سارے نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور بجلی کے بحران کے جن کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ صوبوں نے وفاقی حکومت کی انرجی پالیسی سے اگراتفاق نہیں کیا ہے تواس کی وجہ ان کا یہ خدشہ ہے کہ کچھ غیر مرئی قوتیں (جنہیں یہاں جنات سے تعبیر کیا جارہا ہے) مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتیں اور اس کی آڑ میں وہ نہ صرف قوم کی دولت ہڑپ کرنا چاہتی ہیں بلکہ لوگوں کے خون چوسنے کا ایک مستقل انتظام بھی کرنا چاہتی ہیں۔ لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ وزیراعظم کے دورہ چین میں چین کی حکومت اور سرمایہ کاروں کے ساتھ بجلی کے منصوبوں خصوصاً کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بات ہوتی رہی لیکن اس دورے میں وفاقی وزیر پانی وبجلی بھی شامل نہیں تھے اور سندھ کے وزیراعلیٰ کو بھی ساتھ نہیں لے جایا گیا ، جن کے صوبے میں کوئلے کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ صوبوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ انہیں بجلی کے منصوبوں کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے این او سی جاری نہیں کیا جاتا۔ آئین وفاقی حکومت کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ اب توانائی سے متعلق جو بھی پالیسی بنائے، اس میں صوبوں کواعتماد میں لے ۔ کیا یہ پالیسی سرکاری شعبے میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے متعلق ہو یا پرائیویٹ اداروں سے بجلی خریدنے سے متعلق ہو۔ اب ساری بجلی نیشنل گرڈ میں ڈالنے کے بجائے صوبوں کو اپنے گرڈ اسٹیشن قائم کرنے دیئے جائیں۔ انہیں بجلی کی تقسیم کا اپنا نظام بنانے دیا جائے اور انہیں ٹیرف مقرر کرنے کا بھی اختیار دیا جائے۔ مقامی سطح پر بجلی کی تقسیم سے نہ صرف بجلی کا ضیاع کم ہوگا بلکہ بجلی کا ٹیرف بھی ازخود کم ہوجائے گا۔ صوبے اپنے وسائل سے بجلی پیدا کریں گے یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بجلی کے منصوبوں پر کام کریں گے۔ صوبے اپنے پانی کے وسائل ، ہوا اور گیس وغیرہ کو استعمال کرکے اپنی گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کا ان کا اپنا نظام بھی زیادہ بہتر اور موٴثر ہوسکتا ہے ۔ انرجی پالیسی کا بنیادی مرکز اور محور یہی ہونا چاہئے کہ صوبے خود بجلی پیدا کریں ، خود تقسیم کریں اور خود ٹیرف مقرر کریں۔ اس پالیسی سے وہ جنات غیرموثر ہوجائیں گے جو بجلی کے بحران کے جن کو طاقت اور خوفناکی مہیا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بجلی کے بحران کا جن قابو میں نہیں آئے گا اور اگر کسی طرح اسے بوتل میں بند کرکے بوتل کو سمندر میں پھینکا گیا تو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اس جن کی حفاظت کرنے والے دیگر جنات سمندر کے قریب ہی رہتے ہیں۔
تازہ ترین