• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملالہ یوسف زئی اس دھرتی کی سچی بیٹی ہے کیونکہ اس نے تعلیم، خواتین اور بچوں کے حقوق، عدم تشدد کے فلسفے، جمہوری اقدار اور عالمی انسانی حقوق کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ہے۔ ہمیں اُس کی دلیرانہ کوشش کوسراہنا چاہئے۔ اس کے بجائے کچھ گمراہ پاکستانی اُسے مغرب کا ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ ملالہ کے ساتھ دشمنی کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ اس ملک ، جہاں امریکہ مخالف جذبات کی جڑیں بہت گہری ہیں، میں کچھ لوگ طالبان کو استعمار مخالف اسلامی مجاہدین سمجھتے ہیں چنانچہ جو بھی طالبان کی مخالفت کرتا ہے، خاص طور پر اگر اُس کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہو، اُسے امریکہ یا سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ بھی ملالہ کی کامیابی سے نفرت کرتے ہیں (اُسے امن کے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا گیا ہے)وہ خودامریکی زندگی کا حصہ بننے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
اس ضمن میں بہت سی سازش کی بہت سی تھیوریاں گردش میں ہیں۔ ان میں سے ایک تھیوری یہ کہتی ہے کہ ملالہ کا ”ڈرامہ “ اس لئے رچایا گیا کہ اس کوجواز بناتے ہوئے پاک فوج پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کر سکے۔یہ احمقانہ تصور ہے کیونکہ پاک فوج سوات اور وزیرستان میں 2007ء سے کسی نہ کسی سطح پر آپریشن کر رہی ہے۔ اس آپریشن میں اس نے تین ہزار کے قریب ہلاکتیں برادشت کی ہیں۔ ایک اور تھیوری کے مطابق ملالہ پر حملے کی آڑ میں سی آئی اے نے ڈرون حملوں میں تیزی کردی ہے کیونکہ اس پر حملے نے ان کو درکار اخلاقی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ اس تھیوری کو مضحکہ خیز ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکہ 2004ء سے طالبان کے خلاف ڈرون استعمال کررہا ہے اور صدر اُوباما نے ڈرون حملوں کو اگلی دہائی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے امریکی پالیسی کا اہم حصہ قرار دیا ہے۔ نہ تو سی آئی اے اور نہ ہی آئی ایس آئی کو کارروائیوں کے لئے کسی بچی کی آڑ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے خود طالبان کے ہاتھوں اتنے زخم کھائے ہیں کہ انہیں مزید کسی جواز کی ضرورت نہیں ہے۔
سازش کی تھیوریوں کو پھیلاتے ہوئے کچھ طاقتور حلقے اپنے ذاتی مفاد کا حصول چاہتے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ مولا نا فضل الرحمن طالبان سے بے حد خائف ہیں چنانچہ وہ ان کے ساتھ امن کے معاہدے میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ملالہ کی مخالفت کیوں کررہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی کی سمعیہ راحیل قاضی بھی خود ساختہ حقائق کے ساتھ اس طرح سامنے آئی ہیں کہ وہ ملالہ کی ایک تصویر دکھا رہی ہیں جس میں وہ پاکستان میں سابقہ امریکی سفیر رچرڈ ہالبروک کے ساتھ ہے۔ اس سے قاضی صاحبہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ ملالہ ”امریکی فوج سے رابطے میں تھی“۔ (قاضی حسین احمد مرحوم اور منورحسن کی بھی اس طرح کی بہت سی تصاویر پیش کی جاسکتی ہیں ، تو کیا وہ اصحاب بھی امریکی فوج کے ساتھ شریک تھے؟)
ایسی باتیں کرتے ہوئے یہ بات صاف فراموش کردی جاتی ہے کہ ملالہ عالمی برادری اور اقوام ِ متحدہ کی ستائش کی حقدار بننے سے بہت پہلے پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکی تھی۔ بہت سے پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات نے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے پر ملالہ کی تعریف کی تھی۔ تحریک ِ طالبان پاکستان نے بھی اُسے انہی وجوہات کی بنیاد پر نشانہ بنایا تھا۔ یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ طالبان کئی ایک صحافیوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرا چکے ہیں کیونکہ اُنہوں نے ان کی سفاکیت کا پردہ چاک کرنے کی جرأت کی تھی۔ بات یہ ہے کہ ملالہ بچ گئی ورنہ وہ بھی دہشت گردی کا شکار چالیس ہزار افراد میں سے ایک ہوتی اب جبکہ اُس نے موت کو شکست دے دی ہے ، وہ تعلیم اور بچوں کے حقوق کی علامت بن گئی ہے۔
ملالہ ایک باصلاحیت لڑکی تھی۔ جب وہ سوات میں تھی تو وہ عوام کو طالبان کی حقیقت بتایا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ مغرب میں گئی تو عالمی برادری نے اس کا بھرپور استقبال کیا۔ اس نے کہا کہ نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ ، گاندھی اور انسانی حقوق اور اقدار کی بات کرنے والے اس کے ہیرو ہیں۔ یہ باتیں کسی نے برین واشنگ کرکے اُسے نہیں سکھائیں، وہ یہاں بھی ایسی ہی باتیں کررہی تھی۔ اس کے علاوہ ملالہ کو یواین کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تحریک ِ طالبان اور القاعدہ والے دہشت گرد ہیں۔
کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ملالہ ہی مغربی لبرل اور جمہور پسند دھڑوں کی چہیتی کیوں ٹھہری ہے جبکہ ہزاروں خواتین اور بھی ہیں جو طالبان کے ظلم کا نشانہ بنی ہیں؟اس کا جواب بہت سادہ ہے، ملالہ بہت دلیری سے سوات میں بچوں کے حقوق اور تعلیم کے لئے آواز بلند کرتی رہی تھی چنانچہ یہ اُس کا فعال کردار تھا جو طالبان کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا اور اسی بات نے اُسے مغربی اقوام کا پسندیدہ بنایا ہے۔ ظلم سہنا اور بات ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا دوسری بات ہے۔ جب اُس پر حملہ کیا گیا تو کیا اس طرح کا کوئی اور کردار سوات یا اس علاقے میں موجود تھا؟چنانچہ جب وہ حملے کے بعد زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا تھی تو فطری طور پر ملکی و غیر ملکی میڈیا اُس کی طرف متوجہ ہو گیا اور وہ راتوں رات عالمی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آگئی۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج نے فیصلہ کیا کہ اُسے علاج کے لئے برطانیہ منتقل کیا جائے۔یہ سب حالات اسی نہج پر ڈھل گئے تھے، چنانچہ ان میں کسی سازش کا عمل دخل نہیں تھا۔ ایک اور بات، ملالہ کو کوئین الزبتھ اسپتال برمنگم لے جایا گیا۔ اس اسپتال کے پاکستان کے ساتھ پہلے سے ہی روابط تھے کیونکہ یہاں کے ڈاکٹر پاکستان میں طبی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ اُنہوں نے رضاکارانہ طور پر ملالہ کے علاج کی پیشکش کی تھی۔
اخباری رپورٹس کے مطابق ملالہ کے اہل ِ خانہ صرف اس لئے بیرون ِ ملک گئے تھے کہ اُن کو صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری نے ایسا کرنے کے لئے کہا تھا۔ اُنہوں نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ہدایت جاری کی کہ وہ ملالہ کے والد کی ملازمت کا بندوبست کرے۔ آج ملالہ شہرت کی بلندیوں پر ہے کیونکہ اُس میں جذبہ، حوصلہ اور سادگی مگر روانی کے ساتھ بولنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور آزادی کی بات کرتی ہے۔ ہمیں اس سے حسد کرنے یا تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اُس کو سلام کرنا چاہئے۔ وہ اسی دھرتی کی بیٹی ہے اور وہ جو بھی منزل حاصل کرلے، یہ ہم ہیں جنہیں اُس پر فخر ہے۔
تازہ ترین