• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق عوامی وزیراعظم کی شخصیت اور سیاست سے میرے جیسے لوگوں کو ایک نہیں ایک سو ایک اختلافات تھے سب سے پہلے تو یہ کہ انہوں نے سیاست میں سنجیدگی کی جگہ مضحکہ خیز ہلڑ بازی کو نہ صرف یہ کہ متعارف کروایا بلکہ صحیح الفاظ میں خوب پروان چڑھایا۔ جسے آج سابق کھلاڑی کے پیروکارپستیوں کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچا رہے ہیں۔ تب یہ ’’ہے جمالو‘‘ کا کلچر کہلایا تھا تو آج اسے ’’کسی کے جلسے میں ناچنا‘‘ کہا جا رہا ہے۔ موصوف نے اقتدار کی طمع اور حرص میں ملکی، قومی بلکہ انسانی مفاد کو بھی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو بڑے طمطراق اور نخوت کے ساتھ وارد ہوتا ہے جیسے کہ وہ قوم کا مسیحا یانجات دہندہ ہو لیکن چند برس گزارنے کے بعد تلخ زمینی حقائق بڑی حد تک اس کی آنکھیں کھول دیتے ہیں تو پھر اسی ڈکٹیٹر کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں پھر وہ اس کمبل کو چھوڑنا بھی چاہتا ہے لیکن کمبل اسے نہیں چھوڑتا۔جن نا ممکنات کو ما قبل وہ اپنا ٹارگٹ قرار دیتا ہے ما بعد انہی پر سمجھوتوں کیلئے بے تاب و بے قرار ہو جاتا ہے۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ نے ایوبی اقتدار کا دیوالیہ نکال دیا تھا بالفعل ایوب گر چکا تھا لیکن وہ دھاندلی کے ذریعے جیت کر اپنے آپ کو عوامی حیثیت میں پاپولر لیڈر بھی کہلوانا و منوانا چاہتا تھا اسی طرح وہ عالمی سطح پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو تا شقند معاہدے کے ذریعے بحال کروانا چاہتا تھا۔
پاکستانی سیاست کی تباہ حالی میں جس طرح مذہبی نظام کے نفاذ اور کرپشن کے خاتمے جیسے دونعروں نے کلیدی رول ادا کیا ہے اسی طرح تیسرا نعرہ مسئلہ کشمیر بھی ہماری سیاسی و اقتصادی بربادی کا ذریعہ بنا چلا آ رہا ہے۔ ان نعروں کی گونج نے اگرچہ آج تک پاکستانی قوم کو سنبھلنے کیلئے دیا کچھ نہیں ہے لیکن ہماری قومی زندگی میں ایک نوع کی ہلچل ضرور بپا کئے رکھی ہے۔ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا پہلا ’’فائدہ‘‘ انڈیا دشمنی بھڑکانے جیسے جذبات ہیں تو دوسرا’’ فائدہ‘‘ وطنِ عزیز میں سیاسی انتشار کی صورت برآمد ہوتا ہے تیسرا’’ فائدہ‘‘ براہ راست عسکری مداخلت کی صورت سامنے آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 70ء کے الیکشن ہماری قومی زندگی کے سب سے غیر جانبدارانہ و منصفانہ و شفاف الیکشن تھے لیکن یہ کیسے منصفانہ الیکشن تھے جن کے نتائج کو قبول کرنے سے آپ نے بھی انکار کر دیا اور اوپر بیٹھے وردی پوش نے بھی۔ذراآپ اعدادوشمار کے حوالے سے ان نتائج کا جائزہ تو لیں 300کے ایوان میں آپ نے جو کل نشستیں حاصل کی تھیں وہ 81 تھیں جبکہ آپ کی بالمقابل محترم شیخ صاحب نے جو نشستیں حاصل کیںان کی تعداد تھی160 ۔ آپ کے کل حاصل کردہ ووٹ تھے 6148923 یعنی کل ووٹوں کا 18.6 فیصد جبکہ شیخ صاحب کے ووٹ تھے 12937162 یعنی 39.2 فیصد۔ کوئی بھی منصف مزاج تجزیہ نگار سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دےکہ ان منصفانہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور جیتنے والے کو اس کا سیاسی جمہوری قانونی آئینی اور اخلاقی حق دینے کی بجائے جیل بھیج دینا کتنی بڑی زیادتی تھی۔حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ سات دہائیوں پر محیط ہماری تاریخ بڑی درد ناک او ر نا انصافیوں سے َاٹی پڑی ہے۔ اول الذکر دو جذباتی نعروں نے جس طرح ہماری قومی سیاست کو برباد کیے رکھا اسی طرح تیسرے نعرے نے ہماری سیاست کے ساتھ اقتصادیات کا بھی کچومر نکال دیا نتیجتاً تمام تر قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود ہم دنیا میں ایک غریب قوم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔قائد اعظم کے بعد ہماری سیاسی تاریخ میں دواولوالعزم شخصیات ابھریں ایک حسین شہید سہروردی اور دوسری محترمہ بے نظیر بھٹو۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے ان ہر دو شخصیات کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک کیا۔ محترمہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے کے باوجود انہیں اپنا رول ماڈل نہیں بنایا وہ سستی شہرت یا مقبولیت کی خاطر کبھی جذباتی نعروں کا شکار ہوئیں نہ ہی اپنے والد کے شخصی طلسم میں گرفتار ہوئیں ۔بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کی پالیسی کے مقابلے پر محترمہ نے پرائیوٹائزیشن کو اپنی قومی پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ امریکہ کے حوالے سے بھٹو صاحب جو بھی غیر ذمہ دارانہ نعرے بلند کرتے اور اسے سفید ہاتھی قرار دیتے رہے لیکن بی بی صاحبہ اپنی پارٹی کے اند ر موجود ان غیر ذمہ دار عناصر سے الجھتی رہیں پھر ایسے عناصر کا صفایا کیا جذباتی نعرے لگانا جن کی نفسیات کا حصہ تھا۔ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی جذباتی نعروں پر نہیں درپیش زمینی حقائق اور اعلیٰ انسانی اصولوں پر استوار کی جس میں اصل ترجیح صرف اور صرف وطنِ عزیز کا ہنگامی نہیں دائمی مفاد تھا۔
انہوں نے یہ راز پا لیا تھا کہ وطنِ عزیز کی ترقی، خوشحالی او ر ا قوام ِ عالم میں سربلندی انڈیا دشمنی میں نہیں انڈیا دوستی میں ہے اگر ہم اس منفی جذباتی نعرے میں الجھے رہیں گے تو انڈیا کا شاید کچھ نہ بگاڑ سکیں البتہ اپنے عوام کا مقدر ضرور غربت، بدحالی، سیاسی انتشار اور قومی انارکی جیسے امراض سے جوڑے رکھیں گے اس لئےلئے انہوں نے ہر وہ کاوش کی جس سے ہماری انڈیا دشمنی انڈیا دوستی میں بدل سکے۔ ہمیں سخت افسوس ہے کہ آج ان کے لاڈلے بیٹے نے اپنی شہرت یا مقبولیت کی خاطر محترمہ کی ساری محنت اور تگ و دو پر پانی پھیر دیا ہے آج بلاول کشمیر میں کھڑے ہو کر کشمیر میں روا رکھی جانے والی دہشت گردی کے خلاف کوئی ایک لفظ بولنے کی بجائے وزیراعظم نواز شریف کو طعنے دے رہا تھا تو حقائق یہ چغلی کھا رہے تھے کہ وہ یہ طعنے میاں صاحب کو نہیں در حقیقت اپنی والدہ مرحومہ کو دے رہے تھے جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ مودی کے یار نواز شریف استعفیٰ دیں تو در حقیقت وہ ہر دو حوالوں سے محترمہ کی دی ہوئی سوچ او ر وزڈم کا گلا گھونٹ رہے تھے ۔بی بی نے ہمیشہ واضح کیا کہ کسی بھی حیلے بہانے سے انڈیا دشمنی نہیں ہوگی۔ نام نہاد خالصتان ایشو پر جب انڈین حکومت کو اپنی قومی سلامتی کے لالے پڑے ہوئے تھے عین اس وقت محترمہ نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے نہ ـصرف بھارتی حکومت بلکہ خود بھارت کو بدترین قومی انتشار سے بچایا۔ اپنی قوم کو یہ سمجھایا کہ ہم اچھی ہمسائیگی کا نمونہ پیش کریں۔ ’’ہم انڈیا سے ہزار سال لڑیں گے‘‘ یہ محترمہ کا نعرہ تو نہیں تھا انہوں نے تو اپنے اعلیٰ کردار سے ایسے بے بنیاد اور غیر حقیقی نعروں کی نفی کی تھی بلاول بھٹو یہ مت بھولیں کہ انڈیا دوستی کی خواہش میں محترمہ میاں نواز شریف سے بھی چار ہاتھ آگے تھیں آج آپ جس نوع کی بو چھاڑ کر رہے ہیں کاش آپ تاریخ اور واقعات سے نہیں تو کم از کم اپنی والدہ محترمہ کی تقاریر ہی سے سیکھ لیتے کہ انڈیا دشمنی درحقیقت کس کا ایجنڈا ہے؟۔ عوامی مفاد میں ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہونا چاہئے؟ نواز شریف کے استعفے سے اگر جمہوریت مضبوط ہوتی ہے تو آپ ضرور اس کا مطالبہ کریں لیکن اگر جمہوریت کا بیڑا غرق ہوتا ہے نتیجتاًانارکی پھیلنے کے بعد مارشل لاء کی راہ ہموار ہوتی ہے تو آپ کو اپنی پارٹی کے اندر اس ایشو پر سیر حاصل بحث کروا لینی چاہئے تھی۔ جمہوریت میں ایک دوسرے سے شکایات کسے نہیں ہوتی ہیں لیکن جمہوریت جہاں جدوجہد پر ابھارتی ہے وہیں برداشت کا حوصلہ پیدا کرنے کا درس بھی دیتی ہے۔ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے ذریعے محترمہ کا آپ کے نام یہی پیغام ہے۔ کرپشن کے الزامات آپ کی پارٹی میں کس پر نہیں لگے ہیں لیکن انتہائی مطالبات تک پہنچنے سے پہلے کیا بہتر نہیں کہ آپ ایک مرتبہ کچھ اور نہیں تو ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ ہی کی اسٹڈی فرمالیں۔
تازہ ترین