• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر سینیٹر میاں رضا ربانی صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ نہ بھی کرتے تو بھی ان کے جیتنے کے امکانات انتہائی محدود تھے کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اتنی عددی اکثریت نہیں تھی۔ الیکٹرول کالج میں حکمران نون لیگ کے 282 ووٹوں کے مقابلے میں پی پی پی کے پاس صرف 119 ووٹ ہیں۔ مزید یہ کہ کوئی بھی اہم پارلیمانی جماعت جس کے پاس ووٹوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہو پی پی پی کی حمایت کیلئے تیار نہ تھی۔ رضا ربانی نے بائیکاٹ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ نے پی پی پی کو سنے بغیر پولنگ کا دن 6 اگست کے بجائے 30 جولائی کو مقرر کردیا۔ انہوں نے چیف الیکشن کمیشنر پر بھی نقطہ چینی کی حالانکہ اگر عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن پی پی پی کے سارے مطالبے بھی مان لیتے تو پھر بھی رضا ربانی صدر پاکستان نہیں بن سکتے تھے کیونکہ ان کو جتنے ووٹ الیکٹرول کالج سے چاہئے تھے وہ پی پی پی کے پاس نہیں تھے۔ ان کے برعکس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کے امیدوار جسٹس (ر) وجہیہ الدین نے بائیکاٹ سے انکار کیا کیونکہ ان کی جماعت پی پی پی سے اس مسئلے پر متفق نہیں تھی اور انتخابی عمل کا حصہ بنے رہنا چاہتی تھی ۔ یہ تو پی پی پی ہی بتا سکتی ہے کہ بائیکاٹ کر کے اسے کیا سیاسی فائدہ ملا ہے؟ سپریم کورٹ کا صرف اتنا ہی قصور تھا کہ اس نے نون لیگ کے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی درخواست کی سماعت کی۔ جب وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کے مطالبے کی مخالفت نہ کی تو اس نے حکم دیا کہ صدارتی انتخاب 6 اگست کی بجائے 30 جولائی کو کرایا جائے۔ تاہم بہتر ہوتا اگر پی پی پی کو بھی سن لیا جاتا اگرچہ جب درخواست کی سماعت ہوئی تو اس نے اتنے زور شور سے مطالبہ نہیں کیا تھا کہ اسے بھی سنا جائے جتنا وہ فیصلہ آنے کے بعد کر رہی ہے اور حسب معمول سکینڈل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
موجودہ صدارتی انتخاب بڑا تاریخی ہے۔ مگر رضا ربانی نے خواہ مخواہ اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا یہ کوئی کم اہمیت کی حامل بات ہے کہ ایک جمہوری طور پر منتخب صدر (آصف علی زرداری ) اپنی ٹرم پوری کر رہا ہے اور اس کا جانشین اسی طرح جمہوری انداز میں منتخب ہورہا ہے۔ پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے ورنہ ہمارے ہاں وردی والے آمر ملک پر قابض ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بوگس اور جعلی انداز میں صدر منتخب کرا کے کمال بے شرمی سے صدر پاکستان کہلانا شروع کر دیتے اور کئی کئی سال حکمران بنے رہتے ہیں۔ آصف زرداری سے آپ لاکھ اختلاف کریں اور چاہے جتنا مرضی ان کے انداز حکمرانی پر حملے کریں مگر اس میں دو اراء نہیں کہ وہ جمہوری طور پر منتخب صدر تھے۔ رضا ربانی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے تھا کہ 2008ء میں نون لیگ بڑی آسانی سے کسی بات کا بہانہ بنا کر صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کر سکتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی نے اس کے امیدوار کے طورپر الیکشن لڑا تھا۔ رضا ربانی ایک ڈیموکریٹ ہیں ان کی جمہوریت کیلئے بہت خدمات ہیں۔ انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم تیار کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔ اس کے علاوہ وہ پی پی پی کے پانچ سال دور حکومت میں حق کی آواز بلند کرتے ر ہے یہی وجہ تھی کہ آصف زرداری نے انہیں کبھی بھی کوئی اہم سرکاری عہدہ دینے کا نہیں سوچا بلکہ ہمیشہ اس کے مخالف رہے کہ ان کے پاس کوئی بڑا منصب جیسے چیئرمین سینیٹ آئے۔ رضا ربانی اور اعتزاز احسن بچارے صرف انڈے اور ٹماٹر ہی ”کھانے“ کیلئے رہ گئے ہیں اور انہیں ایسے ہی کام دیئے جاتے ہیں جہاں ایسے نتائج سامنے آئیں ورنہ جہاں کامیابی کا یقین ہوتا ہے وہاں امیدوار رضا ربانی نہیں بلکہ اور کوئی ہوتا ہے۔ تاہم موجودہ بائیکاٹ میں یقیناً رضا ربانی کی رائے شامل تھی کہ الیکشن کے عمل سے باہر نکلا جائے۔ صرف ایک بھونگے فیصلے کی وجہ سے رضا ربانی کی تمام جمہوری جدوجہد اور اصولوں کیلئے لڑائی پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا مگر یہ یقیناً اچھا ہوتا اگر وہ الیکشن لڑتے اور اچھے انداز میں اس کے نتائج کو قبول کرتے۔ ہار جیت جمہوری عمل کا حصہ ہے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ نہ صرف رضا ربانی بلکہ ممنون حسین اور وجہیہ الدین بھی انتہائی عمدہ امیدوار ہیں۔ جن کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔ وہ اپنے اپنے پرفیشن میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس بار وزیراعظم نوازشریف کی نظر انتخاب ممنون حسین پر پڑی کیونکہ وہ ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ انہوں نے ممنون حسین کی وفاداری اور کمٹمنٹ کو اس وقت دیکھا اور پرکھا جب وہ 2000ء میں کراچی جیل میں تھے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس بھگت رہے تھے۔ اس مشکل وقت میں وہ نون لیگ کے ساتھ کھڑے رہے اور پرویز مشرف کے باقی دور میں بھی اپنے سیاسی موقف سے نہیں ہٹے۔ وہ دھیمے مزاج کے آدمی ہیں۔ درمیانے بزنس مین ہیں۔ وہ آصف زرداری یا غلام اسحاق خان جیسے صدر نہیں بننا چاہتے یعنی وہ حکومت کے کاموں میں مداخلت کا بالکل ارادہ نہیں رکھتے ۔ان کی شکل میں پاکستان کو ایک اور فضل الٰہی چوہدری اور رفیق تارڑ مل جائے گا۔ حالیہ ترامیم کے بعد آئین کے مطابق صدر پاکستان کے پاس کچھ اختیارات نہیں ہیں اور تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہوگئے ہیں۔ صدر کا کام صرف نوٹیفکیشنوں پر دستخط کرنا ہے جن کا وزیراعظم مشورہ دیتے ہیں۔ اپنے مزاج اور نون لیگ سے وفاداری کی وجہ سے ممنون حسین صدر کے رول میں فٹ آتے ہیں۔ اختیارات کے مسئلے پر ہی نوازشریف غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری سے جھگڑ پڑے تھے اور آخر سب کی چھٹی ہوگئی تھی۔ وجہیہ الدین بھی یقینا بہت اعلیٰ امیدوار ہیں جو بہت سی صفات کے حامل ہیں۔ سیاسی جماعتیں سندھ کو وفاق میں مناسب نمائندگی دینے کی طرف کتنی متوجہ ہیں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ تینوں امیدواروں کا تعلق کراچی سے ہے۔
شجاعت عظیم کے ساتھ جو کچھ ہوا تکلیف دہ ہے مگر اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں ان کے بھائی طارق عظیم اور وزیراعظم نوازشریف ہیں۔ ان سب حضرات کو معلوم تھا کہ علامہ طاہر القادری کے ساتھ سپریم کورٹ میں کیا کچھ ہوا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس دوسری شہریت تھی جب سے یہ مسئلہ عدالت عظمیٰ میں اٹھا ہے اور اس پر فیصلہ آچکا ہے حکومت کو ہر وقت چوکنا رہناچاہئے کہ وہ کسی بھی دوہری شہریت والے کو کوئی اہم عہدہ نہ دے۔ خود ایسے حضرات کو بھی چاہئے کہ وہ شرمندگی سے بچنے کیلئے جس کا شجاعت عظیم کو سامنا کرنا پڑا ہے یا تو وہ ایسے عہدے لینے کی خواہش ہی نہ کریں اور اگر وہ ان کے بغیر نہیں رہ سکتے تو کم از کم اپنی دوہری شہریت ہی چھوڑ دیں بالکل ایسے ہی جیسے چوہدری سرور نے کیا۔ لہذا پھر نہ کوئی پرابلم ہوگا نہ شرمندگی۔ تھوڑے ہی عرصے میں شجاعت عظیم کے مختلف فیصلے اور ایکشنز سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے وہ بڑی جلدی میں سارے کام کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مشیر ہوا بازی سے مستعفی ہو کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان کیلئے کینیڈین نیشنلٹی کی اہمیت پاکستان میں کیبنٹ پوزیشن سے زیادہ ہے یہ بڑی زیادتی کی بات ہے۔
تازہ ترین