• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک آزادی کشمیر اور بیرسٹر سلطان محمودسے توقعات

تحریر:انعام الحق نامی۔۔۔برمنگھم
زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب انسان نے کچھ اور سوچ رکھا ہوتا ہے لیکن حالات اور تقدیر اسے کہیں اور پہنچا دیتی ہے، اگر ان فیصلوں کو منجانبِ اللہ تسلیم کر لیا جائے تو ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی کرنی میں ہمیشہ بہتری ہوتی ہے یا تقدیر آپ سے کوئی دوسرا کام لینا چاہ رہی ہوتی ہے۔سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو بھی اس الیکشن کے بعد ایسی ہی غیر متوقع صورتِحال کا سامنا کرنا پڑا، جمہوری روایات اور عوامی توقعات یہی تھیں کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے لیکن تقدیر کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، انھیں ریاست کا سب سے بڑا عہدہ منصبِ صدارت نصیب ہوا، یوں تو اس سے پہلے بھی کئی صدور آئے اور گئے لیکن کسی پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم سے زیادہ عوامی پذیرائی رکھنے والے ایسے صدر کی کوئی مثال موجود نہیں، بیرسٹر سلطان محمود کو یہ ذمہ داری ایسے نازک وقت میں سونپی گئی جب اس خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور تحریکِ آزادیِ کشمیر بھی انتہائی اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے، ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مودی کی فاشسٹ حکومت نہتے کشمیریوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو دوسری جانب سید علی شاہ گیلانی کی وفات، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی گرفتاریوں سے تحریک میں قیادت کا خلا پیدا ہو چکا ہے جب کہ اس جانب بیس کیمپ کو سابق حکمرانوں نے اپنے اور بیورو کریسی کیلئے چراگاہ اور کشمیر لبریشن سیل کو بے روزگار رشتے داروں اور چمچوں کے لئے ذریعہِ معاش بنا رکھا ہے۔ یہ قیادتوں کے کردار و عمل کا فرق ہی ہے کہ افغانوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے 40 سال میں دو مرتبہ دنیا کی سپر طاقتوں سے آزادی حاصل کر لی اورآزاد کشمیر کے حکمران 70 سال سے لبریشن سیل کے فنڈز پر سیر سپاٹے کر رہےہیں لیکن بیرسٹر سلطان محمود چوہدری مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں، جس طرح انھوں نے 80 کی دہائی میں اپنی پہلی تقریر کی طرح اپنے پہلے صدارتی خطاب میں بھی آزادیِ کشمیر کیلئے جدو جہد کے عزم کو دوہرایا ہے اس سے قوم کی توقعات ان سے بڑھ گئی ہیں، اگر ہم افغانوں یا دیگر آزادی کی کامیاب تحریکوں کے ساتھ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا موازنہ کریں تو ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ آپسی نفاق اور تحریک کیلئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی عدمِ موجودگی ہے، ہم مقبوضہ کشمیر سے لے کر آزاد کشمیر اور بین الاقوامی دنیا تک اس تحریک کو ایک قوم کی بجائے ایسی ٹکڑیوں میں چلا رہے ہیں جن کا آپس میں کوئی ر بط و رابطہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 70سال سے ہمارا ’نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘، یہ بات مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح بیرسٹر سلطان محمودمختلف متحارب گروپوں کو ساتھ لے کر بین الاقوامی سطح پر احتجاج اور لابنگ کرتے رہے یہ کام کوئی اور ان سے بہتر نہیں کر سکتا، اب جب کہ تقدیر نے انھیں آزادی کے بیس کیمپ کی سربراہی سے نوازا ہے تو اصولی طور پر وہی اس تحریک کے سپہ سالار بھی ہیں، اس لئے ہم ان سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ لبریشن سیل کو بے روزگاری دور کرنے والے ادارے سے بدل کر اب حقیقی معنوں میں تحریکِ آزادی کو منظم و یکجا کرنے کے کام پر لگائیں گے ، آج قسمت نے انھیں موقع دیا ہے کہ وہ تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ کے سربراہ کی حیثیت سے مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں رہنے والے کشمیریوں کو ایک پلیٹ فارم اور قیادت فراہم کر کے حقیقی معنوں میں قائدِ کشمیر کہلانے کا حق ادا کریں، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری یہ کام کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ورنہ یوں ٹکڑوں میں نمائشی سرگرمیوں سے ہم اگلے 170 سال تک بھی کشمیر آزاد نہیں کروا سکیں گے۔
تازہ ترین