• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج دل بہت اداس ہے، سوچ رہا ہوں کہ رمضان المبارک میں ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے روزے رکھتے ہیں لیکن اس مبارک مہینے میں کچھ دنیاوی طاقتوں کی خوشنودی کیلئے ہم ایک دوسرے کاخون کیوں بہا رہے ہیں؟ یہ خونریزی مصر سے عراق اور بنگلہ دیش سے پاکستان تک پھیلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ابھی پارا چنار میں بم دھماکوں سے درجنوں بے گناہوں کی اموات کا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ مصر کی فوج نے قاہرہ کی سڑکوں پر سینکڑوں مسلمانوں کوخون میں نہلا دیا۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسلمانوں کی فوج نے مسلمانوں پر گولیاں برسائیں۔ میں اداسی اور پریشانی کے عالم میں اپنی چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ وقت دور نہیں جب رمضان المبارک میں قاہرہ کی سڑکوں کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کرنے والے جنرل السیسی اور اس کے حواریوں کو مصر میں کہیں پناہ نہ ملے گی۔ عرب میڈیا میں جنرل السیسی کو دور جدید کا فرعون قرار دیا جارہا ہے لیکن مجھے یہ شخص اپنی عادات و اطوار کے باعث جنرل یحییٰ خان کی یاد دلاتا ہے۔ جنرل یحییٰ خان اور اس کے حواریوں نے بھی1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والوں کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور بیلٹ کے فیصلے کو بلٹ سے تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کوشش کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔1971ء کے فوجی آپریشن نے ڈھاکہ کی سڑکوں کو جس خون سے رنگین کیا اسے کے دھبے کتنی ہی برساتیں گزرجانے کے باوجود دھل نہیں پائے۔جنرل السیسی نے مصر میں جو خونریزی کی ہے اس سے جنم لینے والی نفرتیں آنے والی کئی نسلوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ جنرل یحییٰ خان اور جنرل السیسی جیسے سپہ سالاروں نے آج تک اپنی قوم کے دشمنوں کے خلاف کوئی جنگ نہیں جیتی۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنی ہی قوم کے خلاف جنگوں میں مصروف رہے اور ان جنگوں نے ہمیں تقسیم کردیا۔آج آدھا مصر جنرل السیسی کے ساتھ اور آدھا مخالف ہے۔1971ء میں بھی آدھا پاکستان جنرل یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کا حامی اور آدھا مخالف تھا۔ اس فوجی آپریشن سے جنم لینے والی نفرت نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔ کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن بنگلہ دیش کی سیاست ا ٓج بھی 1971ء میں پھنسی ہوئی ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش میں قائم کئے گئے ایک وار کرائمز ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے90سالہ بزرگ پروفیسر غلام اعظم کو 90سال قید کی سزا سنا کر پوری دنیا کو ہلا دیا۔پروفیسر غلام اعظم پر الزام ہے کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر بنگالیوں کے قتل عام میں حصہ لیا۔ حکومت پاکستان نے اس 90سالہ بزرگ کو دی جانے والی ظالمانہ سزا کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر خاموشی اختیار کی ہے۔ اس معاملے پر پچھلے ہفتے ہماری وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی گرما گرم بحث ہوئی جو میڈیا میں رپورٹ نہ ہوئی۔ اس بحث کی کچھ تفصیل بعد میں بتاؤں گا ،پہلے ذرا پروفیسر غلام اعظم کا پس منظر سمجھ لیجئے۔
جماعت اسلامی پاکستان نے پروفیسر غلام اعظم کی ایک تحریر”بنگلہ دیش میں ظلم کا راج“ کے نام سے گزشتہ سال کتابچے کی صورت میں شائع کی تھی۔ جماعت اسلامی کے رہنما جناب شاہد شمسی صاحب نے اس تحریر کے علاوہ پروفیسر خورشید احمد کا ایک خط اور کچھ دیگردستاویزات مجھ تک پہنچائیں جن میں پروفیسر غلام ا عظم کو دی جانے والی سزا کی مذمت کی گئی ہے۔غلام اعظم صاحب نے اپنی تحریر میں بتایا ہے کہ وہ1947ء سے1949ء تک ڈھاکہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ نومبر 1948ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان ڈھاکہ آئے تو غلام اعظم نے خود اپنے ہاتھوں سے انہیں ایک میمورنڈم پیش کیاجس میں بنگلہ زبان کو اردو کے ساتھ پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔اسی مطالبے کی پاداش میں وہ1952ء اور1955ء میں گرفتار بھی کئے گئے۔1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی تو غلام اعظم نے مطالبہ کیا کہ اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کیا جائے۔پروفیسر غلام اعظم کہتے ہیں کہ انہوں نے 14اگست 1971ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں فوجی آپریشن کی سخت مخالفت کی تھی لیکن وارکرائمزٹربیونل میں یہ الزام لگایا گیا کہ غلام اعظم صاحب نے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر البدر بنائی اور عوامی لیگ کے حامیوں کو قتل کرایا۔
غلام اعظم صاحب پاکستان ٹوٹنے کے بعد برطانیہ چلے گئے تھے۔ شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد جنرل ضیاء الرحمان بنگلہ دیش کے حکمران بنے تو غلام اعظم پاکستانی پاسپورٹ پر واپس آئے۔ 1994ء میں بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کی۔وہ2000ء میں سیاست سے ریٹائر ہوگئے لیکن شیخ حسینہ واجد نے انہیں جنگی جرائم کے ا لزام میں سزا دلوادی ہے۔ مارچ2013ء میں مجھے ڈھاکہ جانے کا موقع ملا تو وہاں جنگی جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینے کے حق میں مظاہرے ہورہے تھے ۔ میں نے مختلف بنگلہ دیشی ٹی وی چینلز پر پروفیسر غلام اعظم کے خلاف ٹرائل کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ خود شیخ مجیب نے اپنے دور حکومت میں پاکستانی فوج کے 195افسروں کو جنگی مجرم قرار دیا تھا اور بنگلہ دیشی پارلیمنٹ سے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل ایکٹ بھی پاس کرایا۔شیخ مجیب نے اس زمانے میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مطالبہ کیا کہ90ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں میں سے وہ فوجی افسر بنگلہ دیش کے حوالے کئے جائیں جنہیں جنگی مجرم قرار دیا گیا لیکن پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرکے ان 195 فوجی افسران کو معافی دلوادی۔ شیخ مجیب کے قتل کے بعد جماعت اسلامی کی طرف سے ان کے قاتلوں کے ساتھ اتحاد نے پرانے زخم تازہ کئے اور آج عوامی لیگ اندھا دھند سیاسی نفرت میں انصاف کا مذاق بنارہی ہے۔1971ء کے سانحے کی تحقیقات کے لئے 26 دسمبر 1971ء کو جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا۔ حکومت پاکستان نے اس کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد نہ کیا حمود الرحمان کمیشن نے سفارش کی تھی کہ جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان، جنرل ایس ایم پیرزادہ، میجر جنرل عمر(اسد عمر کے والد) جنرل گل حسن اور جنرل ابوبکر عثمان مٹھا پر عوام کے سامنے کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اگر پاکستان میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پرعملدرآمد ہوجاتا تو بنگلہ دیش میں بھی جنگی جرائم کی بحث ختم ہوجاتی لیکن پاکستان میں آج بھی1971ء کے فوجی آپریشن پر تنقید کرنے و الوں کو غدار قرار دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا اور میجر جنرل خاد حسین راجہ نے اپنی کتابوں میں بنگلہ دیش میں ہونے والے ظلم و ستم کے الزامات کی تصدیق کی ہے اور کبھی نہ کبھی ہمیں اپنے ان جرائم کی معافی تومانگنی پڑے گی۔
گزشتہ ہفتے کابینہ کے اجلاس میں ایک سینئر وفاقی وزیر نے کہا کہ غلام اعظم پاکستان کی جنگ لڑتے رہے لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہئے کہ ان کے ساتھ ناانصافی پر احتجاج کرے اور ایک سینئروزیر نے اپنے ساتھی سے اختلاف کیا اور کہا کہ غلام اعظم نے فوجی جرنیلوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑی کیونکہ یہ جنگ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کے خلاف تھی یہ مینڈیٹ ہی پاکستان تھا اور اس مینڈیٹ کو جھٹلانا پاکستان کے خلاف جنگ تھی ۔ ایک اور وزیر نے غلام اعظم کی حمایت کی لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے اس بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا۔ میرے خیال میں اس مسئلے پر بیان بازی کرنے یک بجائے ہمیں خاموش ڈپلومیسی کرنی چاہئے اور90سالہ غلام اعظم کو علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں صرف ایک غلام اعظم کو نہیں ان لاکھوں بہاریوں کوبھی نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور آج بھی ڈھاکہ کے پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق گیارہ سال اور جنرل سابق نے نو سال حکومت میں رہے لیکن انہوں نے فوج کا ساتھ دینے والے ان بہاریوں کو پاکستان لانے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ کیا یہ پاکستان سے غداری نہیں؟جن قوموں میں حب الوطنی اور غداری کے فیصلے آئین و قانون کی بجائے سیاسی مفادات کے تابع ہوں وہاں جنرل یحییٰ خان اور جنرل السیسی جیسے مفاد پرست حکمران مسلط ہوجاتے ہیں اور پھر ایسے حکمرانوں کی غلطیوں کا خمیازہ صرف ایک نوے سالہ پروفیسر غلام اعظم نہیں بلکہ آنے والی کئی نسلیں بھگتی ہیں ہم نے کچھ نہ کچھ بھگت لیا شاید کچھ مزید بھگتنا باقی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں مفاد پرست حکمرانوں سے محفوظ رکھے۔
تازہ ترین