• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اگر اسے روکنے کا بندوبست نہ کیا گیا تو مجھے وہ وقت دور دکھائی نہیں دیتا جب لوگ نوٹوں کی بوریاں بھر کر بازار جائیں گے اور جیب بھر کر دال یا سبزی لائیں گے۔ بدحالی کا صحیح حال جاننا چاہتے ہیں تو کسی نجومی یا ماہر اقتصادیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں صرف اتنا دیکھ لیں کہ ڈالر ڈارلنگ کتنا اوپر اور پاک روپیہ کتنا نیچے جا رہا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ پر احتجاج اور توڑ پھوڑ کے پیچھے بجلی چوروں کا ہاتھ ہے تو پھر ہر کوئی یہ ملین ڈالر سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے جو مسیحا مسند اقتدار پر جلوہ گر تھے کیا ان کے خلاف احتجاج اور توڑ پھوڑ بھی بجلی چور ہی کروا رہے تھے؟ احتجاجیوں کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں ان کی اپنی احتیاج ہوتی ہے۔
سچ یہ کہ خلق خدا نکونک اور سخت تنگ ہے ، قوت برداشت بھی قوت خرید کی طرح جواب دے چکی اور اگر کوئی بہت ہی بھیانک اور خوفناک ردعمل دکھائی نہیں دے رہا تو اس کی سادہ سی تاریخی وجہ ہے کہ یہ صدیوں کی غلامی کے اثرات سے باہر نہیں نکلے۔ یہ صدیوں سے ”حضور کا اقبال بلند ہو“ …”فدوی“ …”العرضے“ … ”صاحب جی“ … ”سرجی “ …”جناب عالی“ … ”چوہدری جی“ … ”میاں جی “ … ”خاں جی“ … ”سائیں “ ٹائپ ڈکشن اور رھتل کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ ہزار سال کی غلامی کے اثرات ہیں کہ پہلے سلاطین دہلی، پھر مغل اور پھر انگریزوں نے انہیں بری طرح مسلا، نوچا، روندا، رگڑا اور ان کا استحصال کیا ہے۔ برصغیر پر ہزار سال مسلمانوں کی نہیں، مخصوص مسلمان خاندانوں کی حکومت تھی جس میں عام مسلمان رعایا کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ گنتی کے چند مہربان حکمران چھوڑ کر باقی بربریت کی انتہا تھے۔ اپنے دشمنوں کے گوشت سے پلاؤ بنا کر ان کے قریبی عزیزوں رشتہ داروں کو جبراً کھلا دیا کرتے،زندوں کی کھالیں کھنچوا دینا، ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندوا دینا معمول کی معمولی باتیں تھیں۔ وہ تو اپنے سگوں اور محسنوں کو معاف نہیں کرتے تھے تو عام مسلمان رعایا کس کھاتے میں۔ تین ہی قسم کی زندگی تھی ۔ اول : دربار ۔دوم : تختہ دار ۔سوم : بھوکے ننگے ذلیل و خوار ۔دربار اور اس سے نزدیک ، دور بہت دور تک وابستہ کے علاوہ جو سر اٹھاتا … سرِ دار اور باقی حشرات الارض کی طرح رینگتے ذلیل و رسوا و خوار۔ پیٹ بھر روٹی اور سر میں جوتی نہیں ہوتی تھی۔ محلوں، ماڑیوں، حویلیوں اور جھونپڑوں کے درمیان کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے ہم عمر لوگوں میں سے جن کا تعلق مضافات یا پسماندہ علاقوں سے رہا انہوں نے ”عوام“ کو جوتیاں سروں پر اٹھائے یا بغلوں میں دبائے دیکھا ہوا ہے کہ شادی والے گھر پہنچ کر جوتا بغل سے نکال کر پاؤں میں پہن لیا جاتا اور یہ ابھی کل کی بات ہے۔ کوئی ہے جو کبھی مندرجہ ذیل محاوروں کا پس منظر سمجھنا، سوچنا اور جاننا چاہے ؟ مثلاً روکھی سوکھی کھا کر سکون کرنا یا یہ ”دو وقت کی روٹی “ والا محاورہ کتنا عجیب اور کتنا غریب ہے۔ مجھے آج تک اس مفلسانہ محاورے کی سمجھ نہیں آئی۔ ”چپڑی ہوئی اور دو دو“ یعنی دو چپڑی ہوئی روٹیاں رعایا کیلئے ”عیاشی“ کی ایسی آخری انتہا تھی جس کی کوکھ سے اس محاورے نے جنم لیا۔ دوسری طرف سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں کی بود و باش اور دستر خوانوں کے حال تو دور کی بات … راجوں مہاراجوں، رانیوں اور مہارانیوں کے شب و روز پڑھ لیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی شام و شب کا ایک آدھ قصہ ہی سپرد قلم کر دیں تو فحاشی کے مقدمے ختم ہونے کا نام نہ لیں۔ بے بسی کا وہ عالم تھا کہ جب دارا شکوہ کو مریل ہتھنی پر پوری دلی میں گھمایا اور ذلیل کیا گیا تو غیور اور باشعور عوام دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے لیکن مجال ہے جو کسی نے آواز یا تلوار اٹھائی ہو۔ صدیوں بعد جب بھٹو کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تو تقریباً اسی قسم کا منظر نامہ تھا۔ فرق پڑا تو صرف اتنا کہ چند لوگوں نے خود سوزیاں کر لیں اور کچھ ”جیئے بھٹو“ کے نعرے مارتے پھانسی گھاٹ پر مارے گئے۔ خلاصہ یہ کہ بغاوت کا ہنر آتے آتے آتا ہے۔ ضمناً یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مختلف تقریبات میں جب ہم عوام سے لے کر علماء اور خواص تک کو کھانے پر ”یلغار“ کرتے دیکھتے ہیں، پراتیں اور دیگیں اغوا کرتے دیکھتے ہیں تو یہ ”بدتمیزی“ نہیں صدیوں کی وہ بھوک ہے جو بدن سے نکل کر روح تک میں جا گھسی ہے … جسموں سے نکل کر جینز تک میں رچ بس گئی ہے۔ غیر مسلم میرا موضوع نہیں، برصغیر کے مسلمانوں نے بھیانک ترین مظالم تسلسل کے ساتھ برداشت کئے ہیں ۔ یہ دراصل بے بسی، بیچارگی سنڈروم کی انتہا ہے جس نے ایسے لطیفوں کو جنم دیا کہ ظل سبحانی عالم پناہ سے درخواست کریں کہ پل عبور کرتے وقت عوام کی پشت پر جو دس دس چھتر مارے جاتے ہیں تو چھتر مارنے والوں کی تعداد میں کمی کے باعث ہجوم ہو جاتا ہے اس لئے چھتر مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ فرمایا جائے۔ یہی غیر انسانی برباد شدہ نفسیات ہے کہ آج بھی اگر کوئی تھانیدار شریف النفس ہو تو اسے ”زنخا“ اور جو بے دریغ چھترول کرے اسے ”جنا“ قرار دیتے ہیں۔ جو عر ض کیا اس کے حق میں ایک سادہ سی دلیل یہ ہے کہ اگر آج اس زمانے میں، اس گلوبل ویلیج میں جب سب کچھ ”لائیو“ ہے، پاکستان کے مسلمان حکمران خاندان عوام کو اس بری طرح لوٹ رہے ہیں ، ان کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں، ان کی ہڈیوں سے گودا تک کھونچ رہے ہیں تو ذرا غور کریں یہی ”مسلمان حکمران خاندان“ آج سے تین ، چار، پانچ، سات، نو دس سو سال پہلے عوام کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے کہ وہ تو ”غیرملکی“ بھی تھے۔ بے رحم حکمران خاندانوں کا یہ جن جپھا اپنی جون تو بدلتا رہتا ہے لیکن اندر سے وہی کچھ ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ آج تو پھر بھی ووٹ کا ڈھکوسلہ موجود ہے، عدلیہ ہے، میڈیا ہے، بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں ہیں، ہیومن رائٹس کے شوشے اور بہت کچھ ہے، ایجادات نے دنیا کے خدوخال بدل ڈالے ہیں تو پھر بھی یہ حالت ہے کہ کوئی واردات اربوں سے کم کی ہے ہی نہیں۔ سچی بات ہے کہ کروڑوں کی رشوت، ہیرا پھیری، کمیشن اور کک بیک کی خبر سننے کو میرے تو کان ترس گئے۔ یہ عوام کی انتڑیوں کا کاروبار ہے اور وہ غیر منظم چھوٹے موٹے احتجاجوں تک محدود ہیں لیکن کب تک؟؟؟ صدیوں کی اہانت، ذلت، محرومی، بھوک، ننگ، استحصال کے اثرات سلوموشن میں سہی ختم ضرور ہوں گے… آج نہیں تو کل بغاوت ناگزیر سمجھو۔
تب ٹائر نہیں … کچھ اور جلے گا
شیشے نہیں… کچھ اور ٹوٹے گا
دکانیں نہیں … کچھ اور لٹے گا
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ احتجاج اور توڑ پھوڑ کے پیچھے بجلی چوروں کا ہاتھ ہے تو خواجہ میرے خواجہ! تاریخ میں سما جا اور یہ بھید پا جا کہ احتجاج کرنے والوں کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں … ہر کسی کے پیچھے اس کا اپنا پاپی پیٹ ہے۔
تازہ ترین