• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر احمد حسن حامد اور میں ایم اے او کالج لاہور میں برس ہا برس تک بطور استاد طالبعلموں کو غلط ملط اردو سکھانے پر مامور رہے تھے ا ور پروفیسر طفیل دارا اس حوالے سے ہمارے صدر شعبہ تھے۔ باغ و بہار شخصیت کا مالک احمد حسن حامد پنجابی کا بہت اچھا شاعر بھی تھا مگر اپنی شاعری نہ چھپواتا تھا اور نہ سنبھال کر رکھتا تھا، ہم دونوں کسی زمانے میں اچھرے میں ایک دوسرے کے ہمسائے بھی رہے تھے۔ ایک وقت آیا کہ حکومت نے ادیبوں کو تین سو پلاٹ رائٹرز گلڈ کے حوالے سے برائے نام قیمت پر دینے کا ارادہ کیا۔ یہ پلاٹ دس مرلے، ایک کینال اور دو، دو کینال کے تھے۔ دس مرلے کے پلاٹ بغیر قرعہ اندازی کے ملنا تھے اور کینال اور دو کینال کے پلاٹوں کے لئے قرعہ اندازی ہونا تھی تاہم قرعہ اندازی سے قبل ایک معقول رقم ڈاؤن پے منٹ کے طور پر ادا کی جانی تھی۔ میں تو ایک دن اپنی ممبر شپ کے دو سو روپے واپس لینے رائٹرز گلڈ کے دفتر پہنچ گیا تھا چنانچہ میں نے ڈاؤن پے منٹ کہاں سے ادا کرنا تھی، تاہم جن ”چیلوں“ کے گھونسلوں میں کچھ”ماس“ تھا انہوں نے کینال اور دو ،دو کینال کے پلاٹ بذریعہ قرعہ اندازی حاصل کرلئے، احمد حسن حامد کے ہاتھ ماڈل ٹاؤن میں ایک کینال کا پلاٹ آیا اس دوران اس کی ٹرانسفر ایم اے او کالج سے اسلامیہ کالج سول لائنز میں بھی ہوچکی تھی ،چنانچہ اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ بہت مختصر ہو کر رہ گیا۔
پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس کی اہلیہ انتقال کرگئی ہیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد اس کی نوجوان نابینا بیٹی بھی فوت ہوگئی۔ میں تعزیت کے لئے گیا تو میں نے محسوس کیا کہ احمد حسن حامد اب وہ قہقہے لگانے والا احمد حسن حامد نہیں ہے۔ اب وہ کسی اور دنیا کا باشندہ ہے۔ اس کے بعد جب کبھی اس سے فون پر بات ہوئی مجھے لگا بس کسی اجنبی سے بات کررہا ہوں۔ یہ تقریباً ایک ماہ پہلے کی بات ہے میں نے اسے فون کیا تو اس کے بیٹے نوید نے فون اٹھایا میں نے اسے کہا اپنے ابو سے بات کراؤ۔ اس نے فون اپنے ابو کو پکڑادیا مگر مجھے اس طرف سے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ میں نے کہا”حامد، میں عطاء الحق قاسمی بول رہا ہوں یار“ دوسری طرف سے نحیف سی آواز سنائی دی، لیکن مجھے پوری طرح سمجھ نہ آئی کہ اس نے کیا کہا ہے…اب ایک بار پھر خاموشی تھی حامد نے فون نوید کو پکڑا دیا تھا۔ میں بہت پریشان ہوا میں نے نوید سے پوچھا ”خیر تو ہے، حامد صاحب بیمار تو نہیں؟“ اس نے کہا”نہیں، بس ویسے ہی آج کل ذرا کم بات کرتے ہیں“۔
گزشتہ ہفتے یہی احمد حسن حامد فوت ہوگیا ہے مگر میں نے یہ ساری تمہید اس کی وفات کی خبر دینے کے لئے نہیں باندھی اور نہ ہی اس دکھ کے اظہارکے لئے جو مجھے اپنے اس عزیز دوست کی موت سے ہوا بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے جس نے میری سوچوں میں تلاطم پیدا کردیا ہے اور میری خواہش ہے کہ جو لوگ صرف سامنے نظر آنے والی چیزوں کے وجود ہی کو مانتے ہیں اور اس پر اسرار کائنات کی بہت سی پراسرار باتوں کی وہ سائنسی توجیہ کرتے ہیں وہ براہ کرم میری رہنمائی کریں کیونکہ خود میں بھی تشکیک مارا ہوا ہوں سو ہوا یوں کہ احمد حسن حامد کی وفات کے روز جب میں ان کے ہاں پہنچا تو نوید نے مجھے بتایا کہ ابو نے دو ماہ قبل اسے ہدایت کی کہ14جولائی کو گھرمیں ایک جشن ہونا چاہئے جو ساری رات جاری رہے۔ نوید نے کہا یہ تو ہم سب کی خواہش ہے لیکن یہ جشن ساری رات جاری نہیں رہ سکے گا کیونکہ ہمارے گھرکے بالکل سامنے مسجد ہے۔ حامد نے کہا فکر نہ کرو، اس کی اجازت مل جائے گی۔ نوید کے بقول کچھ دنوں بعد ابو نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ14جولائی کی تاریخ یاد رکھنا اور سارے خاندان کو اطلاع کرنا کہ وہ اس جشن میں ضرور شریک ہوں۔ نوید بتاتا ہے کہ جب ایک روز پھر انہوں نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ 14جولائی کو ہونے والی تقریب کی تیاری مکمل ہے تو میں نے کہا”ابو تیاری کیا کرنی ہے بس دوستوں، عزیزوں اور رشتے داروں کو فون ہی تو کرنا ہے لیکن اگر یہ تقریب14کی بجائے 16 جولائی کو منعقد کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ16جولائی رابعہ(نوید کی چھوٹی بہن) کی سالگرہ بھی ہے“۔ اس پر حامد نے کہا”ٹھیک ہے سولہ کو تم سالگرہ کی تقریب بھی رکھنا چاہو تو رکھ لینا لیکن14جولائی کا جشن بہرحال ہوگا، یہ میری خواہش ہے“ چنانچہ نوید نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔
اور پھر یہ ہوا کہ14جولائی کی شام کو احمد حسن حامد کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد اس نے اس دنیاسے منہ موڑ لیا۔اطلاع ملنے پر سب دوست، عزیز اور رشتے دار ان کے گھر پہنچ گئے اور پھر ساری رات جشن گریہ جاری رہا، جس پر مسجد کی انتظامیہ نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تدفین اگلے روز ہوئی کیونکہ رابعہ بیٹی نے لندن سے آنا تھا۔
یہ سب کیا ہے یار وجاہت مسعود تم ہی کچھ بتاؤ، پروفیسر ہود بھائی، آپ ہی کچھ بولو، میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا۔
آخر میں اپنے تازہ چار اشعار درج کررہا ہوں جو اس کالم کے دوران مجھ پر وارد ہوئے اور مجھے یہ کالم ادھورا چھوڑنا پڑا۔
طبیعت ان دنوں بیمار سی رہنے لگی ہے
رگ و پے میں میرے اک شام سی اتری ہوئی ہے
کوئی تو راز ہے جو مضطرب رکھتا ہے مجھ کو
کوئی تو بات ہے سینے میں جو اٹکی ہوئی ہے
بہت کچھ دیکھ بیٹھا ہوں جہان مہر و مہ میں
مگر اک اجنبی سی روشنی کیا کہہ رہی ہے؟
مجھے اب خواہشوں کی موت سے ڈر لگ رہا ہے
کہ مرتی خواہشوں میں اے عطا #یہ زندگی بھی ہے
میں جانتا ہوں یہ انتہائی کمزور اشعار ہیں مگر ان کی کمزوری اس کالم کی اداسی کے صدقے معاف کردیں۔
تازہ ترین