• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری گاڑی مسلسل ہچکولے کھارہی تھی کیونکہ میںشہر کی ایک ایسی مرکزی شاہراہ پر گاڑی چلا رہا تھا جو شروع سے آخر تک جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی، کہیں کہیں گہرے گڑھے پڑ چکے تھے اور ٹریفک کا ہجوم بھی تھا، شہر کی اس مرکزی شاہراہ کے دونوں جانب ایسی کھنڈر نما عمارتیں موجود تھیں جنھیں دیکھ کر مجھے نہ صرف خوف آرہا تھا بلکہ ان عمارتوں میں مقیم غریب شہریوں پر افسوس بھی ہورہا تھا کہ خدانخواستہ کسی بھی وقت یہ عمارتیں زمین بوس ہوگئیں تو ان غریب لوگوں کا کیا بنے گا، ان عمارتوں کا رنگ اتر چکا تھا، پلاستر ادھڑ چکا تھا، پانی اور سیورج کی لائنوں سے پانی بہہ بہہ کر عمارتوں کی رہی سہی عمر کو بھی کم کررہا تھا، سڑکوں کے اطراف ماضی میںلگائے گئے درختوں کا رنگ گند اور مٹی کے سبب ہرے سے گدلا ہوچکا تھا، جی قارئین میں آپ سے بغداد، کابل یا بیروت کی بات نہیں کررہا بلکہ میں آپ کو پاکستان کے پہلے دارالحکومت اور سندھ کے موجودہ دارالحکومت کراچی کی صورتحال سے آگاہ کررہاہوں، کراچی جسے کبھی عروس البلاد کہا جاتا تھا، جہاں کی سڑکیں ہر روز شام کو دھلا کرتی تھیں، اس شہر کی سیاحت کے لئے نہ صرف پاکستان بھر سے سیاح آیاکرتےتھے بلکہ امریکہ، برطانیہ اور جاپان سمیت پوری دنیا کے سیاح یہاں کی خوبصورتی اور کلچر دیکھنے آیا کرتےتھے، یہاں چلنے والی سرکلر ریلوے پاکستان بھر کے عوام کےلئے مثال ہوا کرتی تھی، یہاں کی خوبصورت سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں، قائد اعظم کا خوبصورت مزار، چڑیا گھر، نیٹی جیٹی کا پل، عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار، خوبصورت ساحل پوری دنیاکے سیاحوں کے لئے کشش کا سبب ہوا کرتا تھا، پھر کراچی کی معیشت نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پڑوسی ممالک کے عوام کو بھی ملازمت اور کاروبار کےلئے یہاں کھینچ کرلایاکرتی تھی، یہی وجہ تھی کہ کراچی سے جمع ہونے والا ٹیکس پاکستان کی کل آمدنی کا ستر فیصد ہوا کرتا تھا، لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہے، کراچی کے کچھ پوش علاقوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ کراچی اب جنگ سے تباہ شدہ شہر لگتا ہے، کراچی کا مثالی علاقہ جسے نارتھ ناظم آباد کہاجاتا ہے جہاں مڈل کلاس آبادی مقیم ہے وہاں اب سڑکوں کی باقیات مٹی کی صورت میں موجود ہے، لگتا ہے کئی دہائیوں قبل یہاں سڑک ہوا کرتی تھی اب ان راستوں پر پتھر اور مٹی ہی ملتی ہے، کراچی کا ایک اور علاقہ بفرزون جہاں ایک سو بیس گز کے مکانات قائم ہیں یہاں سڑکیں اب ملبے کا ڈھیر نظر آتی ہیں، غیر قانونی بلند و بالا عمارتیں بن چکی ہیں لیکن کوئی سرکاری ادارہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں، یہ حال تو چار سو گز سے دوسوچالیس گز کے مکانات والے علاقوں کا ہے، ایک سو بیس گز، اسی گز اور چونسٹھ گز کے گھروں والے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے علاقوں کی صورتحال مزید ابتر ہے، جن کی آواز بھی اربابِ اختیار تک پہنچانے والا کوئی نہیں، مجھے کراچی میں خدما ت انجام دینے والے سرکاری اداروں سے شکایت ہے جو کراچی میں بلندوبالا عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن ان کے تعمیراتی معیارکی جانچ کرنے کی زحمت نہیں کرتے، ان بلند و بالا عمارتوں میں وہ غریب شہری فلیٹ خریدتے ہیں جو زندگی میں صرف ایک دفعہ ہی اپنی چھت بنانے کی سکت رکھتے ہیں ذرا سوچیں فلیٹ میں رہائش کے چند ماہ بعد ہی جب وہ اپنی بلڈنگ کو باہر سے سیوریج کی لائن سے رسنے والے پانی کے ذریعے تباہ ہوتا دیکھتے ہونگے تو ان پر کیا بیتتی ہوگی؟ کراچی کی نئی تعمیر ہونے والی اسی فیصد عمارتیں ہی غیر معیاری اور ناقص میٹریل سے تعمیر ہوئی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، سپریم کورٹ کی سرزنش بھی اب حکام بالا پر اثر نہیں کرتی، مجھے کراچی کی موجودہ حالت پر افسوس بھی ہے لیکن گزشتہ دنوں کراچی میں سپر ہائی وے سے چند کلومیٹر کی مسافت پر ایسا شہر بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے جسے اگر کراچی کا دبئی کہیں تو غلط نہ ہوگا، چار سو فٹ چوڑی مرکزی سڑک، شیشوں سے بنی انتہائی معیاری بلند و بالا خوبصورت عمارتیں، چاروں طرف ہرے بھرے درخت، خوبصورت مکانات، لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم کراچی میں ہی موجود ہیں اور یہ علاقہ کراچی ہی کاحصہ ہے، باعث حیرت امر یہ ہے کہ یہ علاقہ سندھ حکومت نے نہیں بلکہ نجی اداری نے آباد کیا ہےجبکہ لاکھوں سرکاری ملازمین پر مشتمل سندھ حکوت ایک خوبصورت اور جدید ترین شہر کی خوبصورتی کو برقرار نہ رکھ سکی، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس شہر کو جسے پاکستان کا معاشی حب کہاجاتا ہے تباہی سے بچانے کے لئے فوری اور موثر اقدامات کرنا ضروری ہیں۔

تازہ ترین