25ستمبر 1981کو برصغیر پاک و ہند کے نامور صحافی و خطیب آغا شورش کاشمیری ؒ کی صاحبزادی صوفیہ شورش مرحومہ کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور میں تھا، میرے ہمراہ شیخ رشید احمد (وفاقی وزیر داخلہ) بھی تھے، اس وقت سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی بھانت بھانت کے ٹی وی چینل۔ لہٰذا جب ہم شادی کی تقریب میں پہنچے تو روح فرسا خبر موصول ہوئی کہ دہشت گردی کے ایک واقعہ میں ممتاز لیگی رہنما چوہدری ظہور الٰہی کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اگلے روز چوہدری ظہور الٰہی کا ایک جنازہ ناصر باغ(لاہور) جب کہ دوسرا جنازہ گجرات میں ہوا۔ شیخ رشید احمد اور میں نے ناصر باغ میں جنازے میں شرکت کی۔ میرا چوہدری ظہور الٰہی سے زمانہ طالبعلمی سے تعلق تھا۔ صحافت کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد یہ تعلق آج تیسری نسل سے قائم ہے۔ مجھے متعدد سیاسی رہنمائوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن میں نے چوہدری ظہور الٰہی جیسے بہادر اور جرأت مند سیاست دان کم ہی دیکھے ہیں۔ 99ویسٹریج راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ تھی۔ اس رہائش گاہ میں پاکستان کی اپوزیشن کے بڑے بڑے اتحادوں نے جنم لیا ہے۔ گجرات کے ’’جاٹ‘‘ چوہدری ظہور الٰہی ’’دوستی اور دشمنی‘‘ میں اس حد تک ’’انتہا پسند‘‘ تھے کہ دوستی اور دشمنی قبر تک نبھاتے تھے۔ عبدالرزاق جھرنا، جسے چوہدری ظہور الٰہی کو شہید کرنے کے جرم میں سزائے موت دی گئی، نے پھانسی کے تختے پر چڑھنے سے قبل اعترافِ جرم کیا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی کی وہ گاڑی آج بھی گجرات میں ان کے گیراج میں محفوظ ہے جسے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا ۔
27فروری 1973کو قومی اسمبلی کے ایوان میں (اسٹیٹ بینک بلڈنگ) میں 1973کے آئین کے ڈرافٹ پر بحث کے دوران چوہدری ظہور الٰہی کا ساڑھے چار گھنٹے کا مسلسل خطاب ان کی یادگار تقاریر میں سے تھا۔ اس تقریر کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی کے درمیان ٹھن گئی۔ چوہدری ظہور الٰہی اور ان کے خاندان کے خلاف 137مقدمات درج ہوئے جن میں بھینسیں چوری کرنے کا ایک مقدمہ بھی شامل تھا لیکن انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے سرنگوں نہ کیا، انہیں ڈیفنس آف پاکستان رولز مجریہ 1971کی دفعہ32(1) کے تحت گرفتار کر کے ’’کولہو‘‘ جیل بھیج دیا گیا، جہاں غیرت مند بلوچ لیڈر اکبر بگٹی نے نہ صرف ان کی حفاظت کی بلکہ انہیں قتل کرنے کی سازش بھی ناکام بنا دی۔
چوہدری ظہورالٰہی ایک سیلف میڈ شخصیت تھے جنہوں نے محنت، کمٹمنٹ اور قربانی کے جذبے سے ملکی سیاست میں بلند مقام حاصل کیا۔ ان کے والد محترم چوہدری سردار خان وڑائچ کو صوفی شاعری سے لگائو تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا لیکن جب 1950میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا تو پورے ملک کی سیاست پر چھا گئے، انہوں نے اپنے پیچھے جو ’’سیاسی ورثہ‘‘ چھوڑا ہے، آج ان کی اولاد اس کا پھل کھا رہی ہے۔ ان میں جاٹ قوم کی ذہانت اور بہادری کی تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ وہ پاکستانی سیاست میں جرات و استقامت کی علامت تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی ہوئی تو ان کی تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں سجالی لیکن اختلاف ہوا تو اس نے دشمنی کی شکل اختیار کر لی۔ گجرات کے جاٹ دوستی اور دشمنی نبھانے میں کھرے ہیں، دوستی کریں تو اس کی لاج رکھنے کے لئے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، دشمنی ہو جائے تو پھر اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے محترمہ بےنظیر بھٹو ’’سیاسی دشمنی‘‘ ختم کرنے کے لئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں جہاں چوہدری شجاعت حسین نے ان کے سر پر چادر ڈالنی تھی لیکن چوہدری ظہور الٰہی کی صاحبزادیاں ’’سیاسی صلح‘‘ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور محترمہ بےنظیر بھٹو کے ظہور پیلس میں استقبال کی تقریب منسوخ کرنا پڑی۔ چوہدری ظہور الٰہی کے پاس کونسل مسلم لیگ کا کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن انہوں نےاسی کونسل مسلم لیگ (حقیقی مسلم لیگ) کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کا کریڈٹ بھی چوہدری ظہور الٰہی کو جاتا ہے۔ چوہدری ظہور الٰہی اپوزیشن کے تمام اخراجات برداشت کرتے تھے حتیٰ کہ اپوزیشن کے کئی رہنما مہینوں ان کے مہمان ہوتے۔ وہ مالی لحاظ سے کمزور سیاسی رہنمائوں کے قیام و طعام اور آمد ورفت کے اخراجات بھی برداشت کرتے تھے۔ میں نے دور حاضر کے ایک بڑے جغادری لیڈر کو ان کے پاس مالی امداد کے لئے حاضری دیتے دیکھا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی چوہدری ظہور الٰہی کو جنرل ضیاء الحق کے قریب لے جانے کا باعث بنی، بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے یہ دوستی اگلی نسل اعجاز الحق کے ساتھ نبھائی۔ چوہدری ظہور الٰہی ملکی سیاست میں ایک صاف ستھرے کردار کے مالک تھے۔ ان کی بہادری اور جرأت کی داستانیں سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سیاست بڑا بےرحم کھیل ہے، ایسا وقت بھی آیا جب چوہدریوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا، ’’نواز شریف دشمنی‘‘ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بن گئے، مسلم لیگ (ق) کو ’’قاتل لیگ‘‘ کا طعنہ دینے والی پیپلز پارٹی نے بھی سیاسی ضرورتوں کے تحت چوہدری برادران کو اپنے سینے سے لگا لیا، جب میں نے چوہدری شجاعت حسین سے پیپلز پارٹی سے صلح کرنے کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ ’’بھٹوز ہی نہ رہے تو دشمنی کیسی؟‘‘چوہدری ظہور الٰہی ایک وضع دار شخصیت تھے، عظیم باپ کی خوبیوں کی ایک جھلک ان کے صاحبزادے چوہدری شجاعت حسین میں نظر آتی ہے۔ خوش گفتاری اور حسِ مزاح ان کی شخصیت کا پر تو ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)