• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اخباری خبر ہے کہ صدر زرداری صرف ایک دن کیلئے بیرون ملک قیام کو کم کر کے ملک آئیں گے اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے مل کر واپس باہر چلے جائیں گے۔ اب یہ خبر غلط بھی ہو سکتی ہے مگر لگتا ٹھیک ہی ہو گی کیونکہ صدر صاحب کو اب اور کسی کام میں تو دلچسپی رہی نہیں اور ان کی جگہ نیا صدر بھی ایک آدھ دن میں منتخب ہو جائے گا تو جان کیری سے ملاقات اور بھی ضروری ہو جاتی ہے کیونکہ اب آنے والے وقتوں میں اگر کوئی مشکل وقت جناب زرداری پر آتا ہے تو جان کیری ہی کچھ مدد کر سکیں گے۔ سوچیں! تو اور کون سا موضوع ان دو حضرات کے درمیان مشترکہ دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے صدر صاحب کا یہ طرز سیاست (اور اب تو اسے طرز زندگی ہی کہنا چاہئے) مجھے قابل رحم لگتا ہے جیسے کسی بڑے عربی شیخ کے حرم کا مالک وفات پا جائے اور اس حرم کی مکین سڑک کنارے کھڑے ہو کر بین کریں کہ ہم یتیم ہو گئے اب کہاں جائیں کوئی ہمیں اپنالے۔ پیپلزپارٹی کے چند بڑے نام جب حال ہی میں میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا رونا رو رہے تھے تو قدوسی صاحب کی بیواؤں کاخیال آگیا۔ اعتزاز احسن کہہ رہے تھے کہ میں اور رضا ربانی تو پیپلز پارٹی میں انڈے اور ٹماٹر کھانے والوں میں ہیں جب پارٹی کو کوئی گالیاں پڑتی ہیں تو ہمیں آگے کر دیا جاتا ہے ورنہ حلوہ پوری اور اربوں کھربوں بنانے والا گروپ تو دوسرا ہے جو حکومت کے مزے لے کر ملک سے بھاگ جاتا ہے اور یہ انڈے اور ٹماٹروں کی بارش کا سامنا جناب اعتزاز کو کرنا پڑتا ہے۔ کیا قابل رحم سین تھا کہ پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے ستون رضا ربانی کے پیچھے چھپ رہے تھے اور رونا دھونا مچایا ہوا تھا ان میں امین فہیم، قمر زمان کائرہ، خورشید شاہ، رحمان ملک اور کچھ دوسرے ایسے سیاسی یتیم نظر آرہے تھے کہ جیسے ان پر کوئی ظلم وستم کا آسمان گر پڑا ہے وجہ یہ تھی کہ اس رونے دھونے کی کہ صدر کا انتخاب 6 اگست کی بجائے 30 جولائی کو کر دیا گیا۔ رضا ربانی تو یقیناً صحیح شکایت کر رہے تھے کہ ان کو اپنی انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں مل رہا مگر شکر کریں پورے ملک میں وہ اڑتے پھرتے، ہزاروں لاکھوں اپنی جیب سے آنیاں جانیاں پر خرچ کرتے اور پارٹی ٹی اے ڈی اے بھی نہ دیتی۔ ہار جیت تو سامنے ہی لکھی تھی مگر بے چاری پیپلز پارٹی کے ان لیڈروں کے پاس اب کوئی ایشو ہی نہیں رہا جس کو لیکر لوگوں کی توجہ حاصل کریں ان قدوسی صاحب کی بیواؤں کیلئے فکر کا مقام ہے کہ اب بھی اتنی بے عزتی اور رگڑائی کے بعد وہ ڈر سے کہے اور چپک کے بیٹھے ہیں کہ شاید کچھ بچا ہوا مال غنیمت ان کو بھی مل جائے۔ اعتزاز احسن نے تو پھر اپنی چٹکی بھر قیمت وصول کر ہی لی مگر رضا ربانی کو اپنی ساکھ خراب نہیں کرنی چاہئے تھی۔ وہ کیوں ایک ایسی قیادت کے لئے قربانی کا بکرا بنے اور صدر کے انخاب کے لئے لڑنا قبول کیا ن لیگ کے پرویز رشید بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر زرداری صاحب کو 10 پرسنٹ بھی یقین ہوتا کہ ان کی پارٹی گٹھ جوڑ کر ے صدارتی انتخاب جیت سکتی ہے تو پھر رضا ربانی کا نام کہیں نہیں ہوتا وہی حلوہ پوری والا دھڑا آگے ہوتا اور خود زرداری صاحب بھی میدان میں کود جاتے تو یہ بے چارے قربانی کے بکرے قابل رحم بھی ہیں اور قابل مذمت بھی مگر یہ جو کچھ ان کو مل رہا ہے یہ شاید اسی کو Deserve کرتے ہیں کیونکہ اگر کوئی لیڈر وقت پر اصول پر کھڑا ہونے کی جرات نہیں رکھتا تو وہ قابل مذمت ہے اور اسے سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ملنا چاہئے۔ آجکل کی پی پی پی صرف رسوائی ہی کما رہی ہے مال ومتاع تو کمانے والے لیکر دیار غیر جا چکے ایک آدھ دن کیلئے اگر آبھی گئے تو پھر فرار ہو جائیں گے۔
اکثر لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں پیپلز پارٹی اور زرداری کو کسی ذاتی مفاد کی وجہ سے معاف نہیں کر رہا۔ مجھے ان لوٹ مار کرنے والوں سے کیا لینا دینا لیکن میں سمجھتا ہوں جس طرح ملک کے ایک اثاثے کو برباد کیا گیا ہے صرف ذاتی دولت اور عیاشی کے لئے وہ قابل معافی نہیں پی پی پی میں کروڑوں لوگوں نے جان ومال وقت اور قوت انویسٹ کرلی تھی اور ان چند بزدل اور بے اصول ٹماٹر اور انڈے کھانے والوں کی وجہ سے یہ اثاثہ اب ڈوب گیا ہے آج ٹی وی کے سامنے کھڑے ہو کر یہ رونا کہ صدارتی الیکشن 7 دن پہلے کیوں بڑھا دیا گیا صرف مگر مچھ کے آنسو ہیں ورنہ کیا ان بڑے بڑے لیڈروں نے اعتراض کیا کہ سندھ میں اویس مظفر کو چھ وزارتیں کیوں دی گئی ہیں اتنی ہمت ان لوگوں میں؟ چاہئے تو یہ تھا کہ سندھ کے چند علاقوں کے علاوہ باقی ملک سے صفایا ہونے کے بعد پیپلز پارٹی ساری اہم قیادت کو دھکے دیکر باہر کرتی مگر یہ ڈرپوک لوگ کہیں کھڑے ہو کر کلمہ حق نہیں کہہ سکتے۔ آج اگر رضا ربانی پورے حزب اختلاف کے امیدوار بن جاتے اور اپنی پارٹی کے چوروں اور ڈاکوؤں کی مذمت کرنے کو تیار ہوتے تو شاید ان کی عزت میں اضافہ ہوتا اور وہ ایک قومی لیڈر بن کر ابھرتے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب اعتزاز احسن کو لاہور سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں مشترکہ امیدوار بنانے کو تیار تھے اور اب ان کی کیا حالت ہے۔ اللہ بچائے! مگر اب ان لوگوں کو اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ ابھی کئی توقیر صادق لائن میں لگے ہیں۔ عدالت نے آصف ہاشمی کو بھی دبئی سے واپس لانے کے احکام دیئے ہیں اور ان پر بھی کھربوں لوٹنے کے الزامات ہیں اللہ کی شان جہاں پچھلی حکومت کے چور پکڑے جا رہے ہیں وہاں خود موجودہ حکومت کے چہیتے بھی عدالت کی زد میں آرہے ہیں اور ایک مشیر صاحب تو جا چکے اب اعتزاز احسن کی تمام کوششیں ناکارہ ہی نظر آرہی ہیں وہ عدالتوں کو متنازع بنانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ وہ انہیں برا بھلا کہہ لیڈر بننا چاہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں میں نے کروڑوں کا نقصان کر لیا ان کی وجہ سے کیا وہ عدالت سے نقصان کی تلافی چاہتے ہیں؟ دین بھی گیا اور دنیا بھی۔ اب تو یہ حال ہے کہ مبینہ طور پر 8 ارب چرانے والے توقیر صادق کے شیو کیلئے پیسے ایک نیب کے افسر نے دیئے اور ان کی خواہش کے مطابق ان کے بال کالے کروا دیئے جائیں نہیں مانی گئی۔ یعنی مبینہ طور پر اربوں کمانے کے بعد اور پکڑے جانے کے بعد اب بھی خواہش ہے کہ ذرا ٹی وی پر اسمارٹ اور نوجوان نظر آئیں۔ یہی خواہش یوسف رضا گیلانی کی بھی ہے وہ وزیراعظم تو نہیں رہے لیکن سوٹ اب بھی وہی پہنتے ہیں کیونکہ یہ ٹی وی کا نشہ بڑا ظالم ہے ابھی مجھے گیلانی صاحب کا ایک ادھار بھی واپس کرنا ہے اور وہ جب میں ان سے ملوں گا تو بذات خود ہاتھ سے کروں گا حالانکہ میرا خیال ہے جو تحفہ انہوں نے مجھے زبردستی بھیجا تھا وہ ضرور سرکاری خزانے سے خریدا گیا ہو گا کل وہ ہو سکتا ہے گیلانی صاحب نے ذاتی پیسوں سے لیا ہو اسی لئے میں نے کسی سرکاری افسر کو واپس نہیں کیا اور خود ان کے ہی حوالے کروں گا کیونکہ چار سال سے وہ کہیں اور ملے ہی نہیں اور میں وزیراعظم ہاؤس ملنے نہیں گیا۔ مگر اب جہاں ملک کو نئے صدر کی مبارکباد دینا پڑے گی وہیں زرداری صاحب کو ان کی 58 ویں سالگرہ کی بھی۔ مجھے الجھن یہ ہے کہ کہ خبر کے مطابق پورے ملک میں ان کی سالگرہ منائی گئی سوچ رہا ہوں لوگوں نے ان کے لئے کیا دعائیں کی ہوں گی۔ اللہ ان کی کمائی میں برکت دے۔ اللہ ان کو اپنی امان میں رکھے یعنی ملک سے باہر۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے یعنی زیادہ دنوں کی رگڑائی۔ اللہ ان کا گھر آباد کرے یعنی بلاول ہاؤس میں خاتون آجائیں۔ اللہ برے کاموں سے بچائے یعنی ان کی شخصیت ہی بدل دے۔ کچھ عجیب سی مشکل ہے مگر دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
تازہ ترین