• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں امریکی حکومت کے اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن (OPIC) اوپک فنڈ کی سربراہ الزبتھ لٹل فیلڈ نے کراچی میں اپنے اعلیٰ افسران کے ساتھ اوپک فنڈ کے پاکستان میں انرجی اور دیگر سیکٹر میں جاری منصوبوں اور مستقبل کے پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں ملک کے معروف صنعت کاروں، بینکوں کے صدور اور کیپٹل مارکیٹ کے اعلیٰ عہدیداران سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن اور قونصل جنرل مائیکل ڈولمین بھی شریک تھے۔ شام میں کراچی میں متعین امریکی قونصل جنرل نے اسلام آباد سے آئے ہوئے امریکی سفیر اور اوپک فنڈ کے وفد کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں انتہائی سخت سیکورٹی کے پیش نظر میرے علاوہ کراچی کے صرف چیدہ چیدہ صنعت کاروں انڈس موٹرز کے رفیق حبیب، TDAP کے عابد جاوید، BOI کے زبیر موتی والا، بہرام آواری، اینگرو انرجی کے سربراہ مجید عزیز، جے ایس بینک کے جہانگیر صدیقی، بینک الفلاح کے صدر عاطف باجوہ، یو بی ایل کے صدر عاطف بخاری، کراچی اسٹاک ایکسچینج کے صدر ندیم نقوی اور انرجی سیکٹر کی اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ امریکی قونصل جنرل اور ان کی ٹیم نے اسلامی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے افطار، نماز مغرب اور پاکستانی کھانوں کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ دوسرے دن کراچی کے مقامی ہوٹل میں سندھ کے سرمایہ کاری بورڈ اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے امریکی وفد کیساتھ اوپک فنڈ کی سرمایہ کاری کی ترجیحات اور طریقہ کار پر ایک بریفنگ رکھی جس کی اہم معلومات میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا تاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کیلئے اوپک فنڈ سے فائدہ اٹھاسکیں۔
امریکہ کے اس اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ فنڈ (OPIC) نے 1971ء سے اب تک 100 سے زائد ترقی پذیر ممالک میں 16.4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس میں 10.7 بلین ڈالر کی مالی سرمایہ کاری، 2.6 بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ فنڈ اور 13.1 بلین ڈالر کی انشورنس گارنٹی شامل ہے۔ اوپک فنڈ سرمایہ کاری کی ترجیحات میں انرجی، انفرااسٹرکچر، ایگریکلچرل سیکٹرز نمایاں ہیں۔ اس فنڈ کا مقصد امریکی سرمایہ کاروں کو دنیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہے اور اس فنڈ نے اپنے قیام سے لیکر اب تک 2,77,000 چھوٹے اور درمیانی درجے کی امریکی بزنس کمپنیوں کو دنیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں متعارف کرایا ہے۔ اوپک ان کمپنیوں کو سرمایہ کاری کیلئے ترجیح دیتا ہے جن میں کم از کم 25% امریکی حصے داری ہو۔ اسی طرح اوپک اُن اوورسیز کمپنیوں کو انشورنس گارنٹی بھی فراہم کرتا ہے جو کم از کم 95% امریکی ملکیت ہوں۔ 1975ء سے اوپک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے 1.3 بلین ڈالر کے 123 منصوبوں کی منظوری دی ہے جن میں گزشتہ 3 سال میں 300 ملین ڈالر کے 14 پروجیکٹ پایہٴ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں، ان میں ہوا اور بائیو گیس سے بائیو انرجی کے سندھ میں 50 میگاواٹ کی بجلی پیدا کرنے، پاکستانی سفائر گروپ، امریکی جنرل الیکٹرک کے 50 میگاواٹ کے ونڈمل پاور پروجیکٹ اور کراچی میں 28 منزلہ سینٹرل پوائنٹ ٹاور جیسے زیر تعمیر منصوبے قابل ذکر ہیں جو انٹرنیشنل سیفٹی اور ماحولیات کے تقاضوں پر پورا اترتے ہیں۔
میرا اپنا گروپ پاکستان میں ایک پاور پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔ اوپک فنڈ کی ڈپٹی چیف پاؤلا ٹوفو اور ڈائریکٹر فنانس ولیم پیگس سے اس پروجیکٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اوپک پاکستان میں انرجی کے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو اپنی پیدا کی گئی بجلی حکومت کو فروخت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ حکومت کی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی وقت پر عدم ادائیگیوں کی وجہ سے IPPs کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اس اہم نکتے کو اوپک فنڈ کی سربراہ الزبتھ لٹل فیلڈ سے بریفنگ کے دوران اٹھایا کہ پاکستان میں زیادہ تر IPPs حکومت کو ہی اپنی بجلی فروخت کررہے ہیں لہٰذااوپک کو اپنی فنانسنگ کی شرائط پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا پاکستان سے دلی لگاؤ ہے، وہ خواتین کی فلاح و بہبود کے ایک پروجیکٹ کیلئے 1990ء میں پہلی بار لاہور آئی تھیں جہاں ان کی ملاقات ایک سیاہ فام امریکی خاتون سے ہوئی جو پاکستان میں قیام کے دوران ان کی رہنمائی کرتی تھیں اور اکثر انہیں لاہور کے ریسٹورنٹس میں کھانے پر لے جاتی تھیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ خاتون موجودہ امریکی صدر بارک اوباما کی والدہ تھیں اور آج 23 سال بعد میں ان کے بیٹے کے ساتھ امریکی حکومت کیلئے کام کررہی ہوں۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا جن میں گورننس، امن و امان، انرجی اور بیورو کریسی کی ریڈ ٹیپ ازم شامل ہیں۔ ان کے مطابق ان مسائل پر قابو پاکر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین باہمی سرمایہ کاری کے معاہدے (BIT) کے بارے میں الزبتھ لٹل فیلڈ نے بتایا کہ اس معاہدے کو سائن کرنے میں صرف 3 ایشوز باقی رہ گئے ہیں جنہیں حل کرکے دونوں ممالک اس اہم معاہدے پر دستخط کرسکتے ہیں جس سے پاکستان اور امریکہ کے مابین سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھلیں گی اور ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان 200 ملین افراد کی ایک بڑی مارکیٹ ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کے پرائیویٹ سیکٹرز کی کمپنیاں توانائی اور تعلیم کے شعبوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اوپک فنڈ کے صدر بننے کے بعد سے اب تک گزشتہ 3 سالوں میں ان کے ادارے کے ذریعے پاکستان میں 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اپنے دورے کے دوران اوپک کے وفد نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کا دورہ بھی کیا اور پورٹ فولیو انویسٹمنٹ میں بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی۔
وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین جس میں دونوں ممالک نے پاکستان اور چین کے درمیان معاشی کوریڈور بنانے کے اہم منصوبوں کا اعلان کیا تھا کے فوراً بعد 25 اور 26 جون کو دبئی میں پاک امریکہ انویسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد اور اب اوپک کے اعلیٰ سطحی وفد کا امریکی سفیر کے ساتھ کراچی اور اسلام آباد کا دورہ اور ان کی پاکستان کے انرجی، انفرااسٹرکچر اور ایگریکلچر سیکٹر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ، چین کو پاکستان میں آزادانہ طور پر معاشی کنٹرول نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر کے معاشی منصوبوں میں اپنا ایک کردار رکھنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر برطانیہ کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان اور برطانیہ کا پاکستان کو یورپی ممالک میں مارکیٹ رسائی میں مدد دینا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ ملکی معاشی و صنعتی ترقی بالخصوص انرجی اور انفرااسٹرکچر سیکٹر کے منصوبوں کیلئے اپنے کارڈز نہایت سمجھداری سے کھیل کر ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔
تازہ ترین