• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتے وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی ”قومی انرجی پالیسی“ کی تیاری کے حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ جسے میڈیا بریفنگ کا نام دیا گیا۔ جس کا اہتمام وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اسی روم میں کیا گیا جہاں چند گھنٹے قبل مشترکہ مفادات کونسل کا پہلا اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں بھی توانائی کے بحران اور بجلی، گیس چوروں کا ذکر ہوا اور میڈیا بریفنگ میں بھی یہی چیز زیر بحث آئی، CCI کے اجلاس میں تو کئی امور مختلف وجوہ کی بناء پر طے نہ ہو سکے۔ جبکہ میڈیا کے ساتھ بریفنگ میں حکومت عوام کو انرجی کے بحران اور اس کے حل کے حوالے سے جو بتانا اور کہنا چاہتی تھی وہ اس میں کسی حد تک کامیاب رہی۔ اس لئے کہ حکومت کی طرف سے عملاً یہ پہلا پالیسی بیان تھا جس کے کئی پہلو بڑے اچھے ہیں اور کئی جواب طلب! اس موقع پر سابق نگران حکومت کے وزیر اور موجودہ وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر مصدق نے تقریباً سو منٹ تک اعدادوشمار کی مدد سے مشکلات، اس کے اسباب اور ان کے حل کے حوالے سے بات چیت کی۔ جس کا خاص نکتہ یہ تھا کہ پاکستان میں نیپرا کے مطابق لائن لائسز 16 فیصد ہیں لیکن بجلی چوری اور دیگر کئی فنی وجوہ کی بناء پر یہ شرح 23 فیصد سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ 5 ہزار میگا واٹ کمی کے تناسب سے 5 گھنٹے ہونے کی وجہ سے 12 گھنٹے سے بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ اس طرح ہمارے ہاں فرنس آئل سے بجلی 16 سے 18 روپے میں پڑتی ہے اور ڈیزل سے بجلی اوسطاً 23 روپے یونٹ تک پڑتا ہے اس طرح کے کئی معاملات تو زیر بحث آئے، تاہم وزیراعظم میاں نواز شریف نے صحیح کہا کہ اگر بجلی نہیں، تو کچھ بھی نہیں، اس سلسلہ میں بہتر تھا کہ اگر مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس سے ایک روز قبل بریفنگ کا اہتمام کیا جاتا تو اس سے زیادہ بہتر مقاصد حاصل ہو سکتے تھے۔ چلیں آئندہ کے لئے اس بارے میں سوچا جانا چاہئے۔
انرجی کا بحران تو ایک ایسا مرض ہے جس کے مستقل علاج کے لئے تمام قومی اداروں کو مل کر گورننس کے بہتر نظام کے ذریعے کوششیں کرنا ہوں گی۔ اس لئے کہ جس ملک میں سالانہ 150 ارب روپے کی بجلی چوری ہو اور ایک سو ارب رپے سے زائد کی گیس چوری ہو، وہاں دوسرے اداروں کا کیا حال ہو گا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اس حوالے سے پارلیمنٹ سے جلد نئے قوانین کی منظوری حاصل کر کے عوام کے اربوں روپے ہضم کرنے والوں کو بے نقاب کریں اس سے ان کی حکومت کی ساکھ بہتر ہو گی۔ دوسرا توانائی کی بچت کے لئے مہم کا آغازاوپر سے کریں، موجودہ حالات میں انرجی کے حوالے سے موثر اکنامک مینجمنٹ ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ا س کے ساتھ ساتھ چونکہ اب نئے نامزد صدر ممنون حسین کا تعلق سندھ سے ہے، حکومت کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ سندھ کے قوم پرستوں اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں، اب وہاں پیپلز پارٹی وہ نہیں رہی، جو زیڈ اے بھٹو یا مسز بے نظیر بھٹو کے دور میں تھی۔ وہاں کے وڈیرے اب زیادہ تر مسلم لیگ کے ساتھ براہ راست ہیں یا ان کے حامی ضرور ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو چاہئے کہ وہ چاروں صوبوں میں انرجی کے حوالے سے ممبران اسمبلی اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لیں۔ اس سے قومی سطح پر جہاں ان کی پوزیشن مضبوط ہو گی وہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نزدیک اچھا تاثر جائے گا کہ حکومت اقتصادی ایشوز کو صحیح طریقے سے ہینڈل کرنے میں مصروف تو ہے مسلم لیگ کے نئے نامزد صدر ممنون حسین کا ذکر بھی اس بریفنگ میں آخری سوال کے طور پر آیا تھا۔ اس کے بعد ٹائمز آف انڈیا میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ وہ بنیادی طور پر ایک مدرسہ کے گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے 1953ء میں مدرسہ دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا اور پھر درس نظامی کے لئے انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انہیں 1955ء میں اس مدرسے سے ڈگری ملی وہ 1940ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے، تاہم 1947ء میں ان کی فیملی پاکستان آ گئی۔ کراچی کے جودھیہ بازار میں ان کے خاندان کا کپڑے کا کاروبار ہے۔ ممنون حسین کراچی میں FPCCI کے صدر بھی رہے ہیں اس کے برعکس پاکستان میں ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ گول گپے کھانے اور کھلانے کے بڑے شوقین ہیں، اس شوق سے وہ پہلے گورنر بنے اور اب صدر مملکت بن رہے ہیں۔ کچھ حلقوں میں اس حوالے سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ سابق صدر فضل الٰہی چوہدری یا رفیق تارڑ بنیں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وہ پاکستان کی تاریخ کے مختلف ترین صدر ہوں، بہرحال انکے ایوان صدر میں بیٹھنے سے کراچی اور دوسرے صوبوں کے بزنس مین مطمئن ہوں گے کیونکہ سب ایک دوسرے کی کاروباری زبان سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں صدارتی الیکشن کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد آنے والے چند ماہ ملکی سلامتی کے حوالے سے بڑے اہم ہیں۔ اس کے لئے کسی تاخیر کے بغیر قومی سلامتی پالیسی کا نہ صرف اعلان کر دینا چاہئے بلکہ اس پر وفاق اور صوبوں کو مل عملدرآمد کا آغاز بھی کر دینا چاہئے تاکہ اس سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنے جان و مال کے تحفظ کی کوئی امید نظر آ سکے۔ اس وقت وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی کوششوں کے باوجود معاشی سرگرمیوں میں وہ تیزی نہیں آئی جو آنی چاہئے تھی بہرحال آنے والے دن اچھے ہی نظر آ رہے ہیں تاہم اس وقت تو روپے کی قیمت میں مسلسل کمی نے حکومت اور بزنس سیکٹر کو خاصا پریشان کر رکھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اوپن مارکیٹ میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلہ میں 4.5 فیصد اور انٹر بینک مارکیٹ میں 2.4 فیصد کم ہو چکی ہے۔ اس طرح اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ میں 3 روپے کا فرق خاصا تشویشناک ہے۔ وزیر خزانہ اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں کہ سرکلر ڈٹ کے لئے 500 ارب روپے کی ادائیگی کی وجہ سے روپے پر دباؤ آیا ہے۔ جبکہ کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے اس حوالے سے ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ڈیوٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس سال فروری سے لے کر اب تک سونے کی درآمد میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں سونے کی کافی تعداد بھارت سمگل بھی ہوتیہے۔ فروری میں پاکستان میں سونے کی درآمد 280 کلو گرام ماہانہ کے حساب سے ہو رہی تھی جو کہ اب 1400 کلو گرام تک پہنچ چکی ہے۔ درآمد میں اضافہ کی وجہ سے ڈالر کی ڈیمانڈ ماہانہ 20 ملین ڈالر سے بڑھ کر 40 ملین ڈالر ہو گئی جبکہ کرنسی کی مقامی مارکیٹ کا سائز 20 ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے سٹیٹ بینک کے بعض سرکلرز کے اجراء کو بھی اس مسئلہ کا باعث قرار دیا جا رہا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کے مطابق اس وقت ملک میں منظور شدہ ڈیلرز 11 سو سے 12 سو ہیں۔ ان میں صرف پشاور میں ان کی تعداد 350 سے 400 کے درمیان ہے۔ ان میں سٹیٹ بینک کے پاس رجسٹرڈ ڈیلرز دس بارہ سے زائد نہیں ہیں، ان حلقوں کے مطابق صرف پشاور (KP) میں کرنسی کا غیر قانونی کاروبار روزانہ 10 ملین ڈالر سے زائد ہوتا ہے جبکہ سندھ کراچی اور لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، کوئٹہ اور دیگر مقامات اس کے علاوہ ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت کو غیر قانونی کرنسی کے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ اس سے روپے کی قیمت میں استحکام لانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
تازہ ترین