• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے نواز شریف چین سے ہو کر آئے ہیں تو امریکہ اور یورپ میں ایک تہلکہ مچ گیا ہے اور امریکیوں نے پہلے برطانوی وزیراعظم کو پاکستان بھیجا انہوں نے اعلان کیا کہ جو پاکستان کا دشمن، برطانیہ کا دشمن ہے اور برطانیہ کا دوست پاکستان کا دوست ہے۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ پاکستان، چین اور ایران کا آپس میں ملاپ ہوجائے کیونکہ یہ ان کے منصوبوں کی موت ہے۔ اس کے فوراً بعد برطانوی وزیر خارجہ 17 جولائی کو اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے پاکستان کو انرجی سیکٹر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر طرح کی امداد دینے کا اعلان کیا اور پاکستان کو یہ پیشکش کی کہ وہ پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف اسٹرٹیجی بنائے تو وہ مدد فراہم کرے گا۔ یہ سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ ممالک پاکستان، چین اور ایران کو آپس میں ملنے نہیں دینا چاہتے۔ چین کے اثرورسوخ سے وہ بہت خائف ہیں اور چین کے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح پاکستان آجائیں گے اور پاکستان کی مدد کریں گے۔ گوادر کی بندرگاہ اگر چلتی رہی تو چین اور پاکستان کے لئے بہت سودمند ثابت ہوگی۔ اس کو روکنے کے لئے جہاں علاقائی ممالک سرگرم ہیں وہاں امریکہ، برطانیہ اور روس بھی رکاوٹ بنیں گے۔ ایران کو بھی اسی سلسلے میں تحفظات ہیں مگر یہ پاکستان کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو بہت مشکل اور دباوٴ کا سامنا کرنا پڑے گا مگر پاکستان میں خون خرابہ بڑھ سکتا ہے، خانہ جنگی ہوسکتی ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوسکتی ہے اور افغانستان سے حملہ ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی بات ناممکن نہیں ہے۔ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے اور بھڑوں کا چھتہ ہے جس میں نواز شریف نے ہاتھ ڈال دیا ہے۔
پاکستان حتی الوسع یہ کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ اور مغرب کو یکسر نظر انداز نہ کرے اور پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور پاکستان نے امریکہ کی خواہش پر مذاکرات شروع کرا دیئے تھے مگر طالبان اور کرزئی حکومت میں موجود ناچاقی نے اُس کو فی الحال معطل کرا دیا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے 2014ء تک بغیر نقصان کے نکل جائے اور پاکستان یہ چاہتا ہے کہ بھارت کا وہاں کوئی اثرورسوخ نہ رہے اور کابل میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوجائے اور طالبان یہ چاہتے ہیں کہ وہ بالآخر اپنے آپ کو حکومت میں حصہ دار بنا لیں اور وہاں کی حکومت میں شمولیت حاصل کرکے اپنا اثرورسوخ بڑھائیں جبکہ حامد کرزئی تو تنہا رہ جاتے ہیں۔ اس پر انہوں نے اوباما سے 25 جون 2013ء کو یہ کہا کہ آپ ہمیں بھیڑیوں کے حوالے کرکے جانا چاہتے ہیں اور آپ ہم سے دفاعی معاہدہ کریں اور جس میں یہ شق شامل ہو کہ امریکہ ہمیں پاکستان سے محفوظ رکھے گا کیونکہ پاکستان ہمارا دشمن ہے اور اگر پاکستان چاہے تو افغانستان میں فوری امن ہوسکتا ہے۔ اس پر اوباما نے افغان صدر سے صاف لفظوں میں کہا کہ وہ وہاں کوئی فوج رکھنے کے حق میں نہیں ہیں، آپ جانیں اور آپ کا ملک۔ مگر ہم پاکستان کے خلاف آپ سے کیسے معاہدہ کرسکتے ہیں۔بے چین امریکہ سخت مشکل میں ہے وہ وہاں سے نکلنا چاہتا ہے اور کرزئی جیسے کمزور شخص کی بات بھی مان رہا ہے اور بھارت کے کردار کے بارے میں بھی نظرثانی کررہا ہے جس سے پاکستان کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اگرچہ امریکی چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی جنرل مارٹن ڈیمسی نے سینیٹ کے کمیٹی پر اپنے دوبارہ اس عہدہ پر فائز ہونے کے لئے جو تحریری بیان دیا اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ہمارے لئے اہم ہے اس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے، پاکستان کو مستحکم کرنا ضروری ہے اور اگر امریکہ القاعدہ کو ختم کرنا، ہرانا ہے یا پھر سے اُن کے محفوظ پناہ گاہیں بننے کا موقع فراہم نہیں کرنا دینا چاہتاہے تو پھر امریکہ کیلئے ضروری ہوگا کہ پاکستان کو ساتھ لیکر چلے۔ پاکستان کو اس لئے بھی ساتھ ملانا ضروری ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اور پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ امریکی کانگریس پاکستان کی امداد جاری رکھے اور پاکستان کے حکمرانوں کو منائے اور اپنے ساتھ رکھے۔ اُس کو سیکورٹی کے معاملات میں ساتھ ملائے رکھے۔ وہاں اب جمہوریت نے جڑ پکڑ لی ہے۔ وہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کئی بار مل چکے ہیں۔ اس لئے امریکہ کو خطے کی سلامتی، دہشت گردی کو روکنا، دہشت گردی کے لئے بم کے حملوں کا سدباب کرنا ہے تو پاکستان کے ساتھ صاف صاف مگر احترام کے ساتھ بات چیت کو بڑھانا چاہئے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا کہ خطہ پُرسکون ہوجائے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پینٹاگون اب پاکستان آرمی سے تعلقات قائم کرچکا ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے رابطے میں ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو امریکہ افغانستان کے معاملے میں زیادہ اہمیت دے رہا ہے اور اس لئے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات قائم کرانا چاہتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو راضی کیا کہ افغان صدر حامد کرزئی کے خدشات دور کرے چنانچہ21 جولائی2013ء کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کو کابل کے دورے پر بھیجا، ساتھ میں پیغام خیرسگالی اور پاکستان کے دورے کی دعوت دی مگر کابل پہنچنے پر سرتاج عزیز کا سردمہری سے استقبال کیا گیا۔ صدر افغانستان نے دورے کی دعوت فوری قبول نہیں کی اور کہا کہ پاکستان پہلے ایجنڈا طے کرے جبکہ وہ اس بات پر ناخوش تھے کہ خود میاں محمد نواز شریف کیوں نہیں آئے۔ سرتاج عزیز نے اس دورے میں حامد کرزئی کو یقین دلایا کہ وہ کوشش کریں گے کہ طالبا ن اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائے جبکہ حامد کرزئی اس قدر برافروختہ ہیں کہ وہ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہی بات25 جون 2013ء کو ایک ٹیلی ویژن گفتگو میں امریکی صدر اوباما سے کہی اور طالبان اور امریکی مذاکرات جو 20 جون 2013ء کو دوحا میں ہونے تھے وہ ملتوی کرادیئے تھے جبکہ کرزئی اس وقت بھی ہوا میں اڑ رہے ہیں، امریکہ سے اپنا سامان حرب واپس لے جانے کا ٹیکس طلب کر رہا ہے اور سامان اب تک پاکستان کے راستے لے جاچکا ہے اس پر70ملین ڈالرز کا جرمانہ لگا رہا ہے، ہائے رے امریکہ کی بے بسی، اس کے علاوہ افغان صدر نے یہاں پر سرتاج عزیز کا سردمہری سے استقبال کرنے اور دعوت فوری قبول نہ کرنے پر پاکستان کو محتاط کردیا ہے۔ پاکستان کو اس میں دلچسپی نہیں ہے کہ کرزئی کو اہمیت دی جائے یا نہ دی جائے، پاکستان نے امریکہ اور برطانیہ کی خواہش پوری کردی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرادیئے، انکے کہنے پر افغان صدر کو منانے کی بھی کوشش کی وہ کچھ کہہ دیا ہے جو امریکہ چاہتا ہے اب اگر افغان صدر ناراض ہوتے ہیں تو یہ اُن کا خود کا نقصان ہے۔
تازہ ترین