• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو دیے گئے قرضوں کی واپسی اور ان پر سود کی وصولی کیلئے پے درپے عوام پر ٹیکس لادنے کی منطق تو یو ں سمجھ میں آتی ہے کہ آئی ایم ایف گویا ایک ساہوکارہے جسے بہرصورت اپنےقرضے اور ان پر سود چاہئے ، خواہ اس کیلئے کوئی ملک کتنے ہی سفاکانہ اقدامات کیوں نہ کرے،بدقسمتی سے ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمار اازلی دشمن بھارت برسوں ہوئے نہ صرف یہ کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی غلامی سے آزاد ہوچکاہے بلکہ اُس کا شمار قرض دینے والے ممالک میں ہونے لگاہے۔ہمارا ہر آنے والا دن آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور دیگرغیرملکی مالیاتی اداروں کی مزید غلامی میں جانے کا اعلان کررہا ہوتاہے۔گویا ہم سات عشروں بعد بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ آزادی محض ایک خطہ زمین حاصل کرنے کا نام نہیں ہے،کہ جس خطے میں ہم آج رہ رہے ہیں اُس پر صدیوں سے آباد ہیں،انگریز سامراج سے آزادی کاایک واضح اور بنیادی مقصد اقتصادی اور معاشی آزادی بھی تھا،حقیقت مگر یہ ہے کہ ہم روزِاول سے خارجہ وداخلہ محاذ پر دیگرجکڑبندیوں کے ساتھ آج بھی اقتصادی طورپر غیروں کے غلام ہیں، اور دور دور تک قومی، معاشی واقتصادی خودمختاری کے امکانا ت نظرنہیں آتے۔ اب قرضوں کا اژدھا کس طرح آئے روز پاکستانی عوام کی رہی سہی قوت خریدکو نگل رہاہے، اِس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔سابق حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں نے کیا گل کھلائے یا موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے کارنامے کیاہیں، اس سے قطع نظرسچ یہ ہے کہ آج غریب عوام کے گھروں کے چولہے جس مشکل سے چل رہے ہیں اس کا اندازہ نہ تو پاکستانی اشرافیہ کرسکتی ہے اور نہ ہی وہ حکمران طبقات جو اندرونِ ملک اور بیرونی دنیامیں اپنے قصر بنا چکے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے اقتدارکے دوام کی خاطر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں کہ جو حکم آتاہے اُس پر فوری عمل کردیا جاتاہے،دوسری طرف اس حکومت میں تمام مافیاز جن کا ذکر خود وزیراعظم بھی کرتےرہتے ہیں، اس قدر آزاد ہیں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاکر اشیائے ضرورت کو ذخیرہ کرنے کے بعد من پسندنرخ پر مارکیٹ میں لاتے ہیں، اس سے مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس سے تو ’’چوروں‘‘کی حکومت اچھی تھی جس میں اس قدرسفاکانہ مہنگائی تونہیں تھی۔خیر ہم عرض یہ کررہے تھے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے انسانی ضرور توں پر ٹیکس عائدکرنے کا مطالبہ تو سمجھ میں آتابھی ہے کہ وہ ہیں تو غیرہی لیکن ان دنوں کراچی میں عوامی حکومت کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کی حکومت کا حال کچھ مختلف نہیں،یہ جس طرح مہنگائی کےمارے شہریوں پر ٹیکس عائدکرنے پر تل گئی ہے، اس سے یہ یقین شک میں بدلنے لگاہے کہ یہ کیسے ’’اپنے‘‘ ہیں اور کیوں کر’’عوامی ‘‘ ہیں؟ سندھ حکومت نے بجلی کے بلوں کے ذریعے کنزروینسی اور فائر ٹیکسز کی وصولی کافیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نےکہا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ گھرانوں سے 200روپے فی گھر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔پیپلزپارٹی کے جیالےمرتضیٰ وہاب، جنہیں سال 2020میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد رواں سال اگست میں کراچی کا نیا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ہے، کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکس وصولی کا بنیادی مقصد کے ایم سی کو مالی طور پر مضبوط بنانا ہے۔مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کے ایم سی ٹیکس سے ماہانہ 60کروڑ روپے جمع ہوں گے جب کہ سات ارب 20 کروڑ روپے کی سالانہ اضافی آمدنی ہو گی۔یہی نہیں بلکہ کچرا اُٹھانے کیلئے فی گھر300روپے ٹیکس وصولی کی جائیگی،یہ ٹیکس وصولی گیس بلوں کے ذریعے ہو گی، اس سلسلے میں سابق میئر کراچی وسیم اختر نےمذکورہ ٹیکسوں سے متعلق سوال اٹھایا ہے کہ کراچی کے علاوہ سندھ کے باقی اضلاع سے ٹیکس وصولی کا بھی کیا یہی طریقہ کار ہے؟وسیم اختر نے وفاقی حکومت سے اپیل کی کہ وہ کراچی کے شہریوں پر میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز لاگو کرنے میں سندھ حکومت کا ساتھ نہ دے۔ایم کیو ایم کے رہنمامحمد حسین کا کہنا ہے کہ کراچی سالانہ ڈھائی ہزار ارب روپے کا ریونیو سندھ کیلئے جمع کرتا ہے، بدلے میں اسے کیا ملتا ہے، وفاقی حکومت کو بھی خطیر رقم شہر قائد سے ملتی ہے، کراچی آج بھی بنیادی بلدیاتی سہولتوں سے محروم ہے، کراچی کے لوگ مزید ٹیکس نہیں دینگے۔جماعت اسلامی ان ٹیکسوں سمیت کراچی کے دیگرمسائل کے حوالے سے مسلسل احتجاج کررہی ہے،کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے ایم کیوایم سمیت دیگر جماعتوں کو بھی مہنگائی سمیت اس طرح کے عوام دشمن ٹیکسوں کے خلاف زبانی جمع خرچ سےآگے بڑھتے ہوئےعملی طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہئے۔

تازہ ترین