• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز پہلے اسلام آباد میں جاپانی سفیر کے گھر پر ایک تقریب ہوئی۔ اس تقریب میں ایک پاکستانی سید فیروز عالم شاہ کو جاپان کا اعلیٰ سول ایوارڈ دیا جانا تھا۔ یہ ایوارڈ جاپانی شہنشاہ کی طرف سے دیا جاتا ہے، اس ایوارڈ کو ’’دی آرڈر آف رائزنگ سن‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ جاپان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ تقریب کیا تھی ایک چھوٹے سے لان میں بارہ کرسیاں تھیں پھر ان بارہ کرسیوں کے سامنے دو کرسیاں اور دو جھنڈے تھے، ایک پاکستان کا جھنڈا اور دوسرا جاپان کا، ایک کرسی پر جاپان کے سفیر متسودا کونینوری بیٹھ گئے اور دوسری نشست پر اس پاکستانی کو بٹھایا گیا جسے ایوارڈ دیا جانا تھا۔ میں نے پیارے پاکستانی کو ایک نظر دیکھا، بالوں میں چاندی اتری ہوئی تھی، شکل و صورت سے آدھا جاپانی نظر آرہا تھا، اس تقریب میں کوئٹہ میں جاپان کے اعزازی قونصل جنرل ندیم شاہ بھی موجود تھے۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ کی فارینہ مظہر بھی تھیں۔ جاپانیوں نے نہایت عزت و احترام سے ایک پاکستانی کو ایوارڈ پیش کیا، اُن کی خدمات کا تذکرہ اس طرح ہوا جیسے وہ جاپان اور پاکستان کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہوں، اس لئے میں نے ٹوکیو میں مقیم جنگ جیو کی شان عرفان صدیقی سے پوچھا کہ ایک پاکستانی سید فیروز شاہ کو جاپان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا ہے، آپ انہیں جانتے ہیں؟ میرے اس سوال پر دھیمے مزاج کے عرفان صدیقی کہنے لگے کہ ’’جو بھی پاکستانی جاپان کو جانتا ہے اور سید فیروز عالم شاہ کو نہیں جانتا تو پھر وہ جاپان کو بھی نہیں جانتا‘‘۔ عرفان صدیقی رکے نہیں، انہوں نے بریک لگانا مناسب ہی نہیں سمجھا کہنے لگے ’’سید فیروز شاہ اس شخصیت کا نام ہے جس کے بغیر پاک جاپان دوستی مکمل نہیں ہوتی، پاکستان کے حکمران جب بھی جاپان کا دورہ کرتے ہیں تو فیروز شاہ ان کے وفد میں ضرور شامل ہوتے ہیں، شاہ صاحب جاپان سمیت کئی ملکوں سے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرتے ہیں۔ مشرف جب صدر تھے تو وزیراعظم شوکت عزیز نے جاپان کا دورہ کیا اس وفد میں سید فیروز شاہ شامل تھے، سابق صدر آصف علی زرداری دو مرتبہ جاپان آئے دونوں مرتبہ فیروز شاہ کا ساتھ تھا، اسی دور میں ایک جاپانی موٹر سائیکل کمپنی نے کراچی میں مینو فیکچرنگ فیکٹری لگائی۔ نواز شریف کے دور میں اسحٰق ڈار یا مفتاح اسماعیل جب بھی جاپان آتے فیروز شاہ ساتھ ہی ہوتے موجودہ حکومت کے مشیر تجارت رزاق دائود نے جاپان کا دورہ کیا، سید فیروز کو اس لئے ساتھ رکھا کہ ان سے کوئی شاندار مشورہ مل جائے گا، سید فیروز شاہ نے ذاتی کوششیں کرکے جاپان کے بڑے اداروں کے سربراہوں سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں کروائیں‘‘

جب میرے دوست عرفان صدیقی سید فیروز شاہ کی اتنی خوبیاں گنوا چکے تو میں نے ان کا رابطہ نمبر حاصل کیا۔ سید فیروز شاہ کو پیغام بھیجا، ایک ایس ایم ایس کیا، بات کرنے کی خواہش ظاہر کی پھر بات ہوئی تو سید فیروز شاہ نے بتایا ’’میں نے جب انجینئرنگ مکمل کی تو میرے والد محترم کہنے لگے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے، میرے نزدیک اس وقت جاپانیوں سے بہتر تربیت کوئی بھی نہیں کر رہا سو مجھے انہوں نے 23 سال کی عمر میں جاپان بھیج دیا، جاپان پہنچتے ہی میں ان کا نظم ونسق دیکھ کر حیران رہ گیا، مجھے ان کی تین چیزوں نے بہت متاثر کیا وہ وقت کے بہت پابند ہیں نو بجے میٹنگ ہو تو 8:55 پر موجود ہوتے ہیں کوئی بارش، کوئی زلزلہ انہیں وقت کی پابندی سے نہیں روکتا۔ دوسری بات یہ کہ جاپانی سخت محنتی ہیں، یہ سارا سال محنت کرتے ہیں یہ چھٹی کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیتے۔ ان کے ملک میں نہ تیل ہے نہ ہی معدنیات، کوئی لمبا چوڑا زرعی سلسلہ بھی نہیں مگر جاپان میں رزق کی فراوانی ہے۔ جاپانی برکت کے وقت سوئے نہیں رہتے بلکہ سورج کا استقبال کرنے والا یہ ملک زمین پر سنہری کرنیں پڑنے سے پہلے جاگ چکا ہوتا ہے، جاپانی رات کو تاخیر سے بھی نہیں سوتے۔ جاپانیوں کی محنت نے انہیں دنیا سے آگے کر دیا تیسری بات پلاننگ ہے، جاپانی ہر کام کے لئےلمبی چوڑی پلاننگ کرتے ہیں‘‘۔

سید فیروز شاہ کو رہ رہ کر جاپان کی باتیں یاد آتی رہیں مگر ہمیں بھی کچھ کچھ یاد ہے کہ جاپان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں، جاپان ہزاروں سال قبل مسیح سے آباد ہے، اس پر تقریباً دنیا کےسب ملکوں ہی نے حملے کئے۔ 13ویں صدی میں منگولوں نے جس رات جاپان پر قبضہ کیا اسی رات سمندر بپھر گیا منگولوں کی کشتیاں اور فوج تباہ ہو گئی۔ جاپانی آج تک اسے رحمت کا زلزلہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کئی حملہ آور آئے، 1945میں تو امریکیوں نے انتہا کر دی، ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم برسا دیے۔ 1949میں ٹوکیو مدعو کئے ہوئے ایک امریکی ماہر نے اس تباہ شدہ قوم کے افراد کو لیکچر دیا۔ انہوں نے اسی امریکی کی گفتگو میں سے کوالٹی کنٹرول کا لفظ چن لیا۔ جاپانیوں نے خوب محنت کی، کاریں بنانے کا ریکارڈتوڑا، بڑے بحری جہاز بنانے کا کام بھی جاپانیوں ہی نے کیا۔ جاپانیوں نے اپنی زبان کی اہمیت کو کم نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے ساری ترقی اپنی زبان میں کی۔ جاپان، یورپی ملکوں سے زیادہ صاف ہے یہاں کوئی اسلحہ نہیں رکھ سکتا، جاپان میں چوری کا تصور نہیں، جاپانی جھوٹ نہیں بولتے، ملاوٹ کا سوچتے تک نہیں۔ جاپانی زبان زیادہ مشکل بھی نہیں اس کی گرائمر اردو سے ملتی جلتی ہے ہم اردو میں پوچھتے ہیں کہ آپ کا نام کیا ہے تو جاپانی میں پوچھا جاتا ہے نامۂ وا۔

صاحبو! ایک شخص نے کام کیا اور جاپانیوں نے اسے اپنے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا، ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ وہ برس ہا برس سے سرمایہ کاروں کو پاکستان لا رہا ہے، یہاں سرمایہ کاری کروا رہا ہے سب حکومتیں اس سے کام لیتی ہیں مگر کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس مخلص، محبِ وطن پاکستانی کو وزیر، مشیر نہیں تو سرمایہ کاری بورڈ کا چیئرمین ہی بنا دیا جاتا۔ بقول روشن علی عشرت

زبان و نسل کے جب فاصلے سمٹتے ہیں

بہت قریب کا رشتہ دکھائی دیتا ہے

تازہ ترین