• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی نئی نویلی حکومت بذریعہ وزا رت خا رجہ ہندوستان سے دوستی پر تل چکی ہے۔ فرنٹ، بیک،سائیڈ سارے چینل کھل چکے ہیں ۔ہندوستان دوستی میں انگ انگ ٹوٹ رہا ہے معلوم نہیں دوستی خوداختیاری ہے یا بہ امر مجبوری؟ بنگلہ دیش میں ہو نے وا لے انٹرنیشنل کر ا ئمز ٹربیونل کی دی جانے والی سزاؤں پروزارتِ خارجہ نے کیا لب کشا ئی کی؟ ”پاکستان کی سالمیت اور حرمت کاساتھ دینے والوں کے خلاف بے رحمانہ اور سفاکانہ سزائیں بنگلہ دیش کا اندرونی معا ملہ ہے“۔
آفرین بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھر چکیں ایسی شقاوت ایسی بے حسی ۔
ملزم نمبر1: 92سالہ پروفیسر غلام اعظم ، الزام! سیاسی نظریہ :”پاکستان“ سزا:90سال قید با مشقت ۔
ملزم نمبر2 : 75سالہ علی احسن مجاہد ، الزام !سیاسی نظریہ: ”پاکستان“ سزا:سزائے موت ۔
اور سزاؤں کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔ کیا حسینہ وا جد اپنے والد محترم کا انجام بھول چکیں یا تہیہ کر لیا ہے کہ سبق نہیں سیکھنا۔تاریخ کا پہیہ الٹا گھما کر جس قبر میں اللہ کے بر گزیدہ بندوں کو دفنانے کا تہیہ کر چکی ہیں امکان قوی ہے کہ ان کا اپنا انجا م اور مقدر ٹھہرے گی ۔شیخ مجیب الرحمن کی سیڑھیوں پر پڑی لاش کو 3دن تک اٹھانے والا کو ئی نہیں تھا ۔ ”بنگلہ بندھو“ بھلا کن کے ہاتھوں قتل ہوئے ؟ مجاہدین آزادی (مکتی باہنی) کو یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے ہاتھوں بنگلہ دیش کو بیچ دیا گیا ہے۔15اگست 1975کو بنگلہ دیش کی فوجی کو نسل جس کی کمانڈ جنرل ضیا ء ا لرحمن کے کنٹرول میں تھی نے شیخ مجیب ا لرحمن کو ایسے اقتدار سے ہٹا یا کہ پو را خا ندان صا ف کر دیا ۔حسینہ واجد کی خو ش قسمتی کہ اس وقت بد قسمت خاندان کے ساتھ مو جود نہ تھی چنانچہ اللہ کی دی ہو ئی سانسوں سے مستفید ہو رہی ہیں ۔ شو مئی قسمت کہ 15اگست ہندوستان کی یو م آزادی تھا اور چیف آرکیٹکٹ آزادیِ بنگلہ دیش اندرا گاندھی آزادی کی تقریبات میں مصروف خبر سنتے ہی حواس کھو بیٹھیں ۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جر نیلوں کی میٹنگ کال کی اور بنگلہ دیش میں فوج داخل کرنے کا حکم صا در فرما دیا کہ فو جی اور دفا عی مشیروں نے ایسے پاگل پن سے باز رہنے کا مشورہ دیا جو طوعاًو کر ہاًقبول کرنا پڑا ، صو رت حال کا جا ئزہ لینے میں ہی عافیت جانی ۔” اکھنڈ بھارت“ برہمن ہندو کاخواب اور منزل مقصود۔ 1971میں پاکستان کے جغرا فیہ کو بزور باز و تبدیل کر نا پہلی وا ردات نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے در جنوں ریاستوں کو بذریعہ فو ج کشی بھا رت میں ضم کیا جا چکا تھا۔
چنا نچہ 1971میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لئے ہندوستانی جنرل ابان کی زیرنگرانی اگر تلہ اور کلکتہ کے گردونواح میں مکتی باہنی اور گوریلا تربیتی کیمپ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی اورانارکی پھیلانے کے لیے ہی تو تھے جو بالآخر ایک خون ریز جنگ کے بعد پاکستان کو دولخت کرگئے ۔ بنگلہ دیش کے مجا ہدینِ آ زا دی جلد ہی ہندو چال بھانپ گئے اور بنگلہ دیش کو غلام بنانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ۔ جنرل عثمانی ، جنرل ضیاء الرحمان، کرنل شریف الحق ، کرنل فاروق میں سے کوئی بھی البدر، الشمس یا جماعت اسلامی کے متعلقین میں سے نہ تھا ۔ ”فوجی کونسل“ نے اس واقعہ کو مجیب الرحمن سے قدرت کا انتقام اور بنگلہ دیش سے غداری کا انجام قرار دیا۔
پروفیسر شانتی میورائے اندرا گاندھی کے مشیر برائے قومی سلامتی اور صدر انڈیا بنگلہ دیش موئتری سمی کیا کہہ گئے ”مجیب الرحمن ہندوستان کے ساتھ غلامی کے شرمناک معاہدے پر دستخط کر کے مادرِ وطن کو بھارت کی طفیلی ریاست بنا چکا تھا اب اگلے مرحلے میں بھارت کے اندر ضم کرنے کے اصول متعین ہونے تھے کہ قتل کر دیے گئے“۔
ملٹری کونسل کا 10 اگست 1975 کو ایک چونکا دینے والا”اندرونی خفیہ میمو“جویونٹ افسروں کے نام جاری کیا گیا، ملٹری کونسل کی سوچ اور اس وقت کی صورت حال کا کماحقہ عکاس ہے۔خفیہ میمو کیا کہہ رہا ہے۔”روسی استعماریت اور ہندوستانی توسیع پسندی نے 1971 کی جنگ آزادی کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی لیگ اور بکسال حکومت جو رجعت پسند طبقے کی نمائندگی کرتی ہے کی مدد سے بنگلہ دیش کو ایک طفیلی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کی حکومت نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق” ہند روس“ بلاک کی اطاعت قبول کرتے ہوئے جنگ آزادی کو بے معنی بنا دیا ہے۔ جنگِ آزادی کی روح مکمل طور پر کچل دی گئی ہے۔ 16 دسمبر کو بنگلہ دیش نے اپنی جغرافیائی آزادی تو حاصل کر لی لیکن کٹھ پتلی حکومت اور اس کے بیرونی آقاؤں نے قوم کو غلامی کی طرف دھکیل دیا۔ قومی آزادی اور ملکی خودمختاری کو ”ہند روس“ بلاک کے آگے گروی رکھ دیا گیا ہے۔ ظالمانہ فرماں برداری کا دور بنگالی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ روسی سامراجیت کے استحصال ، توسیع پسند ہندوستان کے عظیم منصوبے (فاشسٹ ، آمریت، کرپشن، استبداد، دہشت ، قتل و غارت ) نے زندگی ناقابل برداشت بنا دی ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے ساتھ سیاسی عدم استحکام اور لاقانونیت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ آج قوم بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس صورت حال میں ایک عوامی انقلاب منظم کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی کونسل نے مسلح افواج کے محب وطن حلقوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر اس مقدس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے بکسال کی آمرانہ حکومت کو الٹنے اور عوام کو آزاد کرانے کے لیے ایک عوامی انقلاب لانے کا فیصلہ کیا ہے“۔(بحوالہ:Bangladesh-Untold Facts; Lt. Col. Sharif ul Haq)
محترمہ حسینہ واجد یہ سرکلر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا کارنامہ ہے نہ پروفیسر غلام اعظم کا جاری کردہ۔ یہ البدر اور الشمس کا نہیں بلکہ حاضر فوج اور سابقہ آزادی کے مجاہدین و مکتی باہنی کے سرخیلوں کا جاری کردہ ہے۔ اسی سرکلر کی تکمیل میںآ پ کے والد کا بہیمانہ قتل ہوا۔قسمت کے پھیربنگلہ دیش بنانے کے سارے کردار بشمول اندرا گاندھی کس اندوہناک انجام سے دوچار ہوئے ؟کھنڈکرمشتاق احمد جو 1971 کی جلا وطن حکومت میں وزیر خارجہ اور انقلاب 1975 پر بنگلہ دیش کے پہلے صدر بنے نے برادرم مجیب الرحمن شامی کو اندرا گاندھی کے قتل پر گوش گزار کیا۔”کہ آج بنگلہ دیش بنانے والے سارے کردار اپنے انجام کو پہنچ گئے“۔
سقوط مشرقی پاکستان یقینا سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشی اور مقتدر طبقہ کی بنگالی عوام کے ساتھ زیادتیوں کا نتیجہ تھا۔ پاکستان کو ایک رکھنے کی خاطرحکومت ِوقت اور افواج ِ پاکستان سے تعاون کرنے والے پھانسی کے حق دار کیسے ٹھہرے اور یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ کیسے سمجھا جائے؟ جبکہ 1973 میں بھارت میں تینوں ملکوں کے وزراء خارجہ کی میٹنگ میں افواج پاکستان کے خلاف وار کرائمز کے مقدمات درج نہ کروانے کا معاہدہ ہوا اور چند ماہ بعد بنگلہ دیش میں افواج پاکستان کے ممدومعاون بننے والے رضاکاروں کو عام معافی دے دی گئی۔ جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کی تحریک کی مخالفت اپنے سیاسی نظرئیے اور قائداعظم کے افکار کی بنیاد پر کی تھی پروفیسر غلام اعظم اور جماعت اسلامی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اگر ہندوستان کی مدد اور عوامی لیگ کی قیادت میں بنگلہ دیش آزاد ہوا تو فقط ہندوستان کی طفیلی ریاست ہی ہو گا اور حقیقی آزادی حاصل نہ کر پائے گا۔کیا جماعت اسلامی اپنے سیاسی تجزیے اور پیش بینی میں غلط تھی؟ 15 اگست1975 کے انقلاب اور اس سے پہلے فوجی کونسل کی طرف سے لکھے گئے اندرونی میمو نے جماعت اسلامی کے خدشات اور پیشین گوئی پر مہر تصدیق ہی تو ثبت کی ۔ ستم ظریفی کہ 1971 کے بنگلہ دیش کے اندر فوجی ایکشن ، مکتی باہنی وگوریلا کاروائیاں اور ہند پاک جنگ پرہر صاحب رائے نے اپنی سہولت اور نظریہ کے مطابق طبع آزمائی کی ۔
صرف دو کتابیں (War and Secession 1991 by Richard Sisson and Leo Rose) اور سرمیلا بوس کی (Dead Reckoning) بڑی حد تک حقائق کو آلودگی سے علیحدہ کر پائی ہیں۔ سرمیلا بوس نے پہلی دفعہ نہ صرف آزادیِ بنگلہ دیش مخالفین اور بہاریوں کے قتل عام اوربے حرمتی کی تفصیلات دی ہیں بلکہ عوامی لیگ اور بھارت کی مسخ شدہ تاریخ بھی طشت ازبام کی ہے۔اس سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین سابق وائس چانسلر ڈھاکہ یونیورسٹی ، راج شاہی یونیورسٹی نے اپنی کتاب (The Wastes of Time) میں تاریخ کاایسا المناک سانحہ قرار دیا ہے جس میں اسلام اور نظریہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کوبڑے پیمانے پر صفحہ ہستی سے مٹانے کا اہتمام کیا گیا۔سوال یہ اٹھتا ہے 42 سال بعد حسینہ واجد کو پروفیسر غلام اعظم اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں پر افتاد گرانے کی کیا سوجھی؟وجوہات دو ہی ہیں 1971 کی انارکی اور سول وار کے بعد خیال یہ تھا کہ بنگلہ دیش اسلام اور نظریہ پاکستان سے برأت حاصل کرکے ہندوستان کی طفیلی ریاست بن جائے گاجبکہ اگست1975 کے انقلاب نے یہ راسخ کر دیا کہ بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں سے ہندوستان کی نفرت کو کھرچا نہیں جا سکتا۔ اس کے برخلاف پاکستان کے خلاف معاندانہ پراپیگنڈہ کے باوجود پاکستان کی محبت بنگالیوں کے دلوں میںآ ج بھی معجزن ہے۔ 1989 کا ایک کرکٹ میچ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈھاکہ کے سٹیڈیم میں کھیلا گیا کے بارے میں عمران خان بتاتے ہیں کہ ڈھاکہ کا لبا لب بھرا سٹیڈیم پاکستانی ٹیم کے حق میں جنونی ہو چکا تھا۔ لگتا تھا میچ لاہور میں کھیلا جا رہا ہے اس سے بھی زیادہ خیرہ کن کہ جب میچ کے بعد پاکستانی ٹیم سٹیڈیم سے ہوٹل پہنچی تو سارا راستہ دو رویہ عوام اپنی محبت کا والہانہ اظہار کر تے رہے ۔ بنگلہ دیشی عوام کا جذبہ و جنون دیکھ کر پاکستانی کرکٹرز کی آنکھیں نم ہو گئیں۔بنگلہ دیشی عوام کا یہ رویہ بھی حسینہ واجد کی ایک پریشانی ہے ۔دوسری وجہ ان کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ ہے ایسی شقاوت اور بے رحمی کہ سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے برگزیدہ بزرگوں کو جھوٹے مقدموں میں انہونی سزائیں دلوائی جائیں۔ 1972 میں پروفیسر صاحب کی شہریت منسوخی کے فیصلہ کو1994 میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فل بینچ نے کالعدم قرار دیا اور ان پر سارے الزامات کو بوگس ۔حیرت مجھے پاکستان فارن آفس کے بیان پر ہوئی کہ” پروفیسر غلام اعظم اور ساتھیوں کو سزائیں بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے“ جبکہ بین الاقوامی ہیومن رائٹس اور قانون کی تنظیمیں شدومد سے ان ٹرائلز کو بوگس اور بین الاقوامی اور بنگلہ دیش کے قانون سے متصادم سمجھتی ہیں اور ان مقامات اور سزاؤں کی پُرزور مزاحمت اوربھرپور مذمت کر رہی ہیں۔اس وقت بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت، مسلم نیشنلزم کی بنیاد اسلام کو ختم کرکے، انڈین کانگرس کے انڈین نیشنلزم کو فروغ دے رہی ہے جو یقینا اس کا اندرونی مسئلہ ہی سمجھا جائے۔ البتہ اے میرے پاکستانی اہل ِ اقتدار 1971 کے وار کرائمز کی آڑ میں مسلم نیشنلزم کو پروان چڑھانے والوں کو سزائے موت اور سینکڑوں سال قید اوروہ بھی اس وقت کی حکومت کی اعانت پر،بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی وزاتِ خارجہ پاکستان کو چشم پوشی کی اجازت۔حضور ڈپلومیسی کا ایک چینل اس معاملے پر بھی۔ عین نوازش ہو گی۔
تازہ ترین