• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک انتہائی مقدس، بابرکت اور نیکیوں پر سبقت لے جانے والا مہینہ ہے۔ اس ماہ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرے کیونکہ عام دنوں کے مقابلے میں رمضان المبارک میں ایک نیکی کا ثواب 70 گنا زیادہ ہوجاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان اس ماہ مبارک میں عبادات کے ساتھ ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق زکوٰة اور خیرات بھی ادا کرتا ہے اور ایک بڑی رقم زکوٰة اور خیرات کی مد میں دی جاتی ہے۔ زکوٰة اور خیرات دینے کا یہ سلسلہ یوں تو سال بھر جاری رہتا ہے مگر رمضان المبارک میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور لوگ اس مقدس ماہ میں دل کھول کر زکوٰة اور عطیات غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس ماہ مخیر حضرات غریبوں اور مستحقین میں کھانا، راشن اور کپڑے بھی تقسیم کرتے ہیں تاکہ زیادہ ثواب کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا اور خوشنودی بھی حاصل کی جاسکے۔
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں انفرادی طور پر سب سے زیادہ عطیات دیئے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ماہ رمضان میں تقریباً 60 فیصد پاکستانی مخیرحضرات غریبوں اور مستحقین کیلئے زکوٰة اور خیرات مختص کرتے ہیں یا پھر فلاحی اداروں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ Pakistan Centre of Philanthropy کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خیرات اور زکوٰة کی مد میں سالانہ تقریباً 200/ارب روپے دیئے جاتے ہیں جو ایک خطیر رقم ہے اور اگر اسے صحیح معنوں میں غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کیا جائے تو غربت میں کئی گنا کمی لائی جاسکتی ہے۔ حکومت بھی یکم رمضان المبارک کو بینکوں کے کھاتے داروں کی رقوم سے زکوٰة کی مد میں اربوں روپے حاصل کرتی ہے لیکن اس کا ایک بڑا حصہ مستحقین تک نہیں پہنچ پاتا اور کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کے باعث بینکوں کے کھاتے دار زکوٰة کی کٹوتی سے بچنے کیلئے رمضان المبارک کی آمد سے کچھ روز قبل ہی مختلف بہانوں سے بینکوں سے اپنا سرمایہ نکلوالیتے ہیں یا جعلی زکوٰة ڈیکلریشن بینک میں جمع کروا دیئے جاتے ہیں تاکہ بینک ان کے اکاؤنٹ میں جمع رقوم پر زکوٰة کی کٹوتی نہ کر سکے جبکہ یہی حضرات اپنے ہاتھوں سے غریبوں اور مستحقین میں زکوٰة اور خیرات تقسیم کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگوں نے حکومت پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے۔ دوسری طرف حکومت بھی یہ دیکھتے ہوئے کہ جب لوگ انفرادی طور پر ایک خطیر رقم غریبوں اور مستحقین پر خرچ کررہے ہیں تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں ایسی ہزاروں این جی اوز موجود ہیں جو مختلف طبقات کیلئے کام کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی فلاحی ادارے جو خدمت خلق میں سرگرم عمل ہیں اور انسانی فلاح و بہبود کیلئے مثبت کام کررہے ہیں انہی عطیات، زکوٰة اور خیرات پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فلاحی ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ اُسے زیادہ سے زیادہ عطیات ملیں تاکہ اسے فلاحی کاموں میں دشواریوں اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کیلئے مختلف فلاحی ادارے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کراتے ہیں۔ اسلام ہمیشہ اس بات کا درس دیتا ہے کہ جب آپ کسی غریب یا مستحق کی مدد کریں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو مگر آج کل یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ مخیر حضرات اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے بجائے غریبوں اور مستحقین میں خیرات اور زکوٰة تقسیم کرتے وقت اپنی شہرت کیلئے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے نمائندوں کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف غریبوں اور مستحقین کی تضحیک ہوتی ہے بلکہ ایسے اندوہناک حادثات اور واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں خیرات اور زکوٰة کے حصول کے دوران کئی غریب اور مستحق افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں گلشن اقبال میں پیش آیا تھا جہاں ایک ادارے کی جانب سے راشن تقسیم کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں 2 خواتین ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئی تھیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ کچھ سال قبل کھوڑی گارڈن جوڑیا بازار میں بھی راشن کی تقسیم کے دوران 16 خواتین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ ہر سال اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کچھ دنوں بعد بھلادیئے جاتے ہیں لیکن کسی نے ان واقعات کی روک تھام اور ان کے سدباب کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات کئے اور نہ ہی ان بدنصیب خواتین کے بارے میں کبھی سوچا جنہوں نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر اپنی جان دے دی۔
رمضان المبارک کے دوران فائیو اسٹار ہوٹلوں اور کلبوں میں افطار ڈنر پر بڑی گہما گہمی نظر آتی ہے جہاں ایک فرد کے افطار ڈنر کا خرچ 1200 سے 1500 روپے آتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب اسی طرح کے ایک افطار ڈنر میں مدعو تھا تو فائیو اسٹار ہوٹل لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ بری طریقے سے کھانا ضائع کررہے تھے۔ اگر ہم ایک دن کے افطار ڈنر کے خرچ سے کسی غریب کی مدد کردیں تو اس سے ہمیں جو دلی تسکین حاصل ہوگا وہ ناقابل بیان ہے۔ پاکستان میں غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رمضان المبارک میں میرے ادارے میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان جو لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کا ادارہ ہے میں موذی مرض میں مبتلا کئی بچوں نے رمضان اور عید کے موقع پر اچھے کھانے، نئے کپڑے اورجوتے پہننے کی خواہشات کیں۔ ادارے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک اور عید کے موقع پر زیادہ سے زیادہ بچوں کی خواہشات کی تکمیل کی جائے تاکہ ان کی زندگی میں تھوڑی دیر کیلئے خوشیاں بکھیری جاسکیں۔
کاش ہم اپنے اندر کی تلخیوں اور نفرتوں کو نکال کر محبت اور ایثار بانٹیں، آگ لگانے کے بجائے آگ بجھانے والے بنیں، تاریکیوں کا شکوہ کرنے اور مایوسی پھیلانے کے بجائے خاموشی سے ایسے کام کریں جو دوسروں کی زندگی میں خوشیاں لاسکتے ہوں۔ آج ملک میں چاروں طرف چھائے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اگر ہم اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں تو تاریکی میں ضرور کمی واقع ہوگی۔ اس کالم کے توسط سے مخیر حضرات اور قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کے اس نوبل مشن میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس میں آپ کے تعاون اور مدد کی بھی ضرورت ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ www.makeawish.org.pk پر اُن لاعلاج بچوں کی خواہشات کی فہرست موجود ہے جن کے وہ پوری ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ آپ بھی کسی بیمار بچے کی خواہش کو پورا کرنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں اور اپنے عطیات میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے اکاؤنٹ نمبر 01-1825382-01 میں جمع کرواسکتے ہیں۔ اگر ملک کا ہر مخیر شخص یہ ذمہ داری لے لے کہ وہ ایک لاعلاج بچے کی آخری خواہش پوری کرے گا تو مجھے امید ہے کہ پاکستان کا کوئی بچہ اپنا خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہیں ہو گا اور شاید ہمارا یہی نیک عمل ہماری نجات کا سبب بن جائے۔
تازہ ترین