• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ہم سخن ہونے کا، بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کے سوالات سننے کا، بہنوں بھائیوں سے تبادلۂ خیال کا اور اگر والدین حیات ہیں تو ان کی خدمت کرنے کا دن۔ ایک گزرے ہفتے کا جائزہ لینے، آنے والے ہفتے کا لائحہ عمل بنانے کا دن۔ 

آج کل تو بارشیں ہورہی ہیں۔ برسات روایتی طور پر کہانیوں، افسانوں، ناولوں اور فلموں میں بڑی حسین رُت کہلاتی رہی ہے۔ ’’دو ٹکے کی نوکری لاکھوں کا ساون‘‘ ذہن میں گونجتا ہے مگر ہم جن شہروں بالخصوص کراچی میں رہتے ہوئے بارشوں اور وہ بھی طوفانی بارشوں کا سن کر ہی خوف آتا ہے۔

میں کئی دن سے سوچ رہا ہوں کہ ہم پاکستانی ڈرتے کیوں ہیں؟ ایک مملکت میں رہتے ہوئے خود کو غیرمحفوظ کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ تو درست ہے کہ ہماری سرحدوں پر ہمارے محافظ جاگتے ہیں تو ہم آرام کی نیند سوتے ہیں۔ جیسے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو باہر سے محفوظ کردیا ہے۔ برحق، مگر ہم اندر سے کیوں محفوظ نہیں ہیں؟ 

بارش آتے ہی کچی بستیوں، پرانی آبادیوں میں رہتے ہم وطن خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنی حکومتوں کی یقین دہانیوں پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ صدر مملکت کہیں یا وزیراعظم کہ گندے نالوں کی صفائی کردی گئی ہے، ہمیں اعتبار کیوں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اتنا میٹھا پانی نازل کرتا ہے ہم نے اس رحمت کو سنبھالنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا۔ 

لاہور میں سنا ہے Monsoon Underground Water Reservoirبنایا گیا ہے جہاں ڈیڑھ سو ملین پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ 30ایکڑ رقبہ مخصوص کیا گیا ہے، 3 ایکڑ تالاب کے لئے۔ یہ تو ہمارے عطاء الحق قاسمی ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ دعویٰ کس حد تک سچا ہے۔

میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو رات بھر بارش ہوتی رہی ہے۔ مزید طوفانی جھکڑوں کی اطلاع ہے۔ ایسے طوفانوں کے نام بڑے خوبصورت رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت ہم جس کے تھپیڑے سہہ رہے ہیں اس کا نام ’گلاب‘ ہے۔ 

ہم تو محبوب کے ہونٹوں کو پنکھڑی اک گلاب کی سی کہتے رہے ہیں۔ امریکہ یورپ والے بھی ایسے دلبرانہ زنانہ نام ہی رکھتے ہیں۔ میں عرض کررہا ہوں۔ بارش آئے تو پاکستانی ڈرتے ہیں۔ 

برف گرے تو پاکستانی لرزتے ہیں۔ الیکشن آنے والے ہوں تو کانپتے ہیں۔ صوبے اور مرکز میں کشمکش بڑھ جائے تو ہم سادہ لوحوں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ پولیس اسٹیشن جانا پڑ جائے تو ہمارے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ عدالت میں پیش ہوں تو خوف آتا ہے کہ نہ جانے کتنی بےعزتی ہو، جیب کتنی خالی ہو جائے۔ 

ریل گاڑی سے سفر کرنا ہو تو پرانے حادثوں کی یادیں حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ کسی اسپتال میں جانے کی نوبت آجائے تو اندیشہ ہائے دور دراز گھیر لیتے ہیں۔ کسی سرکاری محکمے جانا پڑ جائے تو پاکستانی ڈرتے ہیں کہ افسر بہادر کیسے پیش آئیں گے؟ کہیں اپنی رائے کا اظہار کرنا ہو تو ہزار خوف۔ 

علمائے دین کا، فرقہ واریت کا، حکومتی جبر کا۔ اٹھتے بیٹھتے بزرگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ اللہ تھانے کچہری سے بچائے۔ دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا کامیاب بزنس کہلاتا ہے۔ کووڈ کے دنوں میں پرائیویٹ اسپتالوں نے خوب کمایا۔ 

گھر پر قرنطینہ کرنا ہو تو اس کا مکمل پیکیج ہے۔ پورے کمرے میں اسپتال قائم کردیا جاتا تھا۔ مریض کو ضرورت دو دن کے لئے ہو یا چار دن، بل پورے مہینے کا ادا کرنا پڑتا تھا۔

بازار سے کھانے پینے کی چیزوں سے ڈر لگتا ہے کہ چینل پر جو دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح کھانے بنتے ہیں۔ ٹافیاں، مٹھائیاں۔ پھر خبریں بھی کہ بریانی کھانے سے ایک ہی خاندان کے کتنے افراد چل بسے۔ 

میرا خوف یہ ہے کہ انسان جنگلوں سے شہروں کی طرف اسی لئے آئے تھے کہ ایک محفوظ مستحکم معاشرہ ملے گا لیکن اب شہروں میں تو جنگلوں سے بھی برا حال ہے۔ ایک مملکت اور شہری کے درمیان معاہدہ بھی یہی ہوتا ہے کہ مملکت شہری کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہوئے اس کی ہر طرح حفاظت کرے گی۔ 

سانس لینے کے لئے تازہ ہوا۔ کھانے کے لئے خالص خوراک۔ کفالت کے لئے اچھا روزگار اور چلنے پھرنے کے لئے اچھی سڑکیں۔ محفوظ سواریاں اور وہ بھی آمدنی کے مطابق فراہم کرے گی۔ بارشوں طوفانوں میں تحفظ دے گی۔

میری عظیم مملکت پاکستان میں تحفظ کا احساس بتدریج ختم ہورہا ہے۔ غیرمحفوظ ہونے کا یقین بڑھتا جا رہا ہے۔ کبھی حکمرانوں نے، رہبروں نے، دانشوروں نے میڈیا نے، احساس کیا ہے کہ ایسے خوف افراد سے آگے بڑھنے کی ہمت چھین لیتے ہیں۔ جدت ندرت کا حوصلہ نہیں رہتا۔

میں نے گوگل سے مدد مانگی تو وہ Social Stability سے متعارف کراتا ہے کہ یہ احساس کا وہ درجہ ہے جہاں تک ایک معاشرہ اور اس کے ادارے قابلِ انحصار رہتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک حفاظت دے سکتے ہیں جہاں ایک فرد یا گروہ اپنے آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی پورے یقین کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ 

عہدِ حاضر کے ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ یہ استحکام کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور ایک معاشرے کی منزل۔ ملکوں کی آزادی اور ترقی کے شگوفے اس سماجی استحکام سے ہی پھوٹ سکتے ہیں۔ 

تفصیل کی گنجائش تو نہیں ہے۔ ایسے معاشرے جہاں فیصلہ سازی معقول اور منظم انداز میں ہو سکے جہاں تنازعات مہذب طریقوں سے انتشار اور کشیدگی پیدا کیے بغیر طے ہوتے ہیں جہاں حکومتیں تعلیم اور صحت عامہ کی خدمات بہت احتیاط اور ذمہ داری سے فراہم کریں کیونکہ صحت مند افراد اس قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ جہاں قانون کا نفاذ یکساں ہو، عدالتیں سب کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرتی ہوں۔ اقتصادی استحکام بھی سماج کو مستحکم کرتا ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتیں افراد کی آمدنی کے مطابق ہوں۔ 

ہر پندرہ روز بعد پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا ہو جہاں مذہب، ثقافت اور روایات کا احترام اور تحفظ ہوتا ہو۔ جہاں زمانے کے رجحانات کے ساتھ معاشرتی تبدیلیاں آتی رہیں۔ جہاں ہمسایوں سے پُر امن تعلقات ہوں۔ دنیا معاشرے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے کیلئے تحقیق در تحقیق کررہی ہے۔ 

بنیادی مقصد ہر فرد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں یقینی انداز میں فراہم کرنا ہے تاکہ انسان کے دل اور ذہن سے خوف نکل جائےجہاں سماج یہ استحکام نہ دے سکے، حکمرانوں کی یہ منزل ہی نہ ہو تو وہاں فرد خوف زدہ ہی رہے گا اور پیش رفت مطلوبہ رفتار سے نہیں ہوسکے گی۔

تازہ ترین